
نئی دہلی،29اکتوبر(ہ س)۔غالب انسٹی ٹیوٹ اور راجستھان اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ’پروفیسر قمر رئیس: شخصیت اور فکر فن‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار 29/اکتوبر کو ایوان غالب میں اختتام پذیر ہوا۔ سمینار کے دوسرے دن تین تکنیکی اجلاس ہوئے۔ پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر سراج اجملی اور ڈاکٹر ریشما پروین نے کی۔ پروفیسر سراج اجملی نے کہا پروفیسر قمر رئیس کی شخصیت ایک نظریے اور رجحان سے وابستہ تھی اور ان کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ فکشن کے بہترین نقاد اور استاد تھے۔ لیکن میرا تجربہ بالکل مختلف ہے۔ میں نے ان سے شاعری پڑھی ہے اور شاعری کی تدریس جیسی وہ کرتے تھے میرا خیال ہے اس کی مثال آسانی سے نہیں ملے گی۔ ڈاکٹر ریشما پروین نے کہا کہ پروفیسر قمر رئیس نے جس طرح اپنی نسل کو متاثر کیا ہے آنے والے نسل کے لیے بھی وہ اسی طرح سے اہمیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے جس طرح اپنے شاگردوں کی تربیت کی ہے اس سے تمام اساتذہ کو سبق لینا چاہیے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم نے ’پروفیسر قمر رئیس کا تنقیدی ارتکاز‘، ڈاکٹر شبنم شمشاد نے ’سماجی آگہی اور اظہار ذات کا شاعر قمر رئیس‘، پروفیسر ریاض احمد نے ’قمر رئیس کی ادبی جہتیں‘ اور پروفیسر خالد اشرف نے ’پروفیسر قمر رئیس اور فکشن تنقید‘ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر ابراہیم افسر نے ادا کیا۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی، اور ڈاکٹر خالد علوی نے کی۔ پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے صدارتی تقریر کے دوران کہا قمر رئیس صرف میرے دوست نہیں تھے بلکہ دوست سے بھی زیادہ اگر کوئی لفظ ہو تو وہ تھے۔ ان کی تمام تحریریں اگر جمع کی جائیں تو وہ سجاد ظہیر، پروفیسر احتشام حسین کے بعد سے سب سے اہم لکھنے والوں میں شمار ہوں گے۔ ڈاکٹر خالد علوی نے کہا قمر رئیس کی ادبی شخصیت پر بات کرتے ہوئے ان کی بعض شخصی خصوصیتیں پس پردہ چلی جاتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ ایک صاحب نے اسکول بنانے کے لیے ان سے مدد کی درخواست کی اور انھوں نے ایک خطیر رقم اسکول کو بھیج دی، اسی طرح نامعلوم کتنے غریبوں کی وہ خاموشی سے مدد کرتے تھے۔ یہ تمام رویے ان کی شخصیت کو مکمل کرتے ہیں۔ اس اجلاس میں پروفیسر ریشما پروین نے ’تعلقات کی تثلیث اور قمر رئیس‘، پروفیسر سراج اجملی نے ’قمر رئیس بحیثیت شاعر‘، پروفسیر صغیر افراہیم نے ’پریم چند، قمر رئیس اور علی گڑھ‘، کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شبنم شمشاد نے کی۔ آخری اجلاس کی صدارت پروفیسر ارتضیٰ کریم اور پروفیسر ریاض احمد نے کی۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کہا قمر رئیس کی کتابیں اور کاغذات جامعہ کے پریم چند آرکائیو میں منتقل ہو گئے ہیں۔ ان کاغذات میں بھی تلاش کرنا چاہیے کہ کوئی نامکمل کتاب یا غیر مطبوعہ مضامین کا اس میں موجود ہونا عین ممکن ہے۔ قمر رئیس کی وجہ سے نامعلوم کتنے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں تنہا ان کی یہی نیکی ان کی بخشش کے لیے کافی ہے۔ ڈاکٹر ریاض احمد نے کہا وہ طلبا سے فاصلہ بنانے میں یقین نہیں رکھتے تھے مثلاً اگر ان کا طالب علم جنرل ڈبے میں سفر کر رہا ہے تو وہ یا تو اس کو اپنے ساتھ منتقل کر لیتے یا پھر خود اس کے ساتھ جنرل میں منتقل ہو جاتے یہ شفقت کی ایسی مثال ہے جس کو میں نے ان کے بعد نہیں دیکھا۔ اس اجلاس میں پروفیسر اسلم جمشید پوری نے ’قمر رئیس کی فکشن تنقید‘، اور ڈاکٹر نگار عظیم نے ’پروفیسر قمر رئیس چند یادیں‘ کے عنوان سے مقالے پیش کیے۔
پروفیسر علی احمد فاطمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کسی ادبی شخص سے اگر تعلق ہو تو شخصی باتیں درمیان میں فطری طور پر آجاتی ہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اصل میں علمی حوالے ہی باقی رہیں گے۔ قمر رئیس کا علمی رویہ ہی ان کو باقی رکھے گا کیونکہ ان میں ایک سچا نقاد اپنی پوری بصیرت کے ساتھ موجود ہے۔ پروفیسر فاروق بخشی نے شکریے کی رسم ادا کرتے ہوئے کہا میری ایک گزارش پر قمر رئیس کے تقریباً تمام شاگرد جمع ہو گئے یہ میرے لیے ایک جذباتی مرحلہ ہے۔ انھوں نے میری جس طرح تربیت کی اس کا حق تو ادا نہیں ہو سکتا ہے لیکن ہم جیسے طلبا اس کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں اور یہی ہمارا قمر رئیس کو خراج عقیدت ہے۔ ڈاکٹر ادریس احمد نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا قمر رئیس میرے استاد کے استاد تھے اس لیے اگر میں ان کے لیے کچھ کرسکا تو اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ جب یہ مقالے کتابی شکل میں سامنے آئیں گے تو استفادے کا دائرہ وسیع ہوگا۔ اس اجلاس کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر محضر رضا نے ادا کیا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais