
نئی دہلی،28اکتوبر(ہ س)۔غالب انسٹی ٹیوٹ اور راجستھان اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ’پروفیسر قمر رئیس: شخصیت اور فکر فن‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی سمینار کا افتتاح ایوان غالب میں ہوا۔ سمینار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہا میں پروفیسر قمر رئیس کا براہ راست شاگرد نہیں ہوں لیکن میں نے ہمیشہ خود کو ان کا شاگرد سمجھا۔ وہ نرے نقاد نہیں تھے بلکہ تحریک اور نظریے سے وابستہ نقاد تھے۔ جس وقت ایسا لگنے لگا تھا کہ ترقی پسند تحریک ختم ہوگئی ہے اس وقت انھوں نے اس میں نئی جان پھونکی۔ میرا خیال ہے کہ تحریک کو زندہ کرنے میں ان کے علم سے زیادہ عمل کو دخل تھا۔ اس لحاظ سے وہ سر سید اور سجاد ظہیر کے قبیلے کے سپاہی معلوم ہوتے تھے۔ اس موقع پر پروفیسر صغیر افراہیم کو ساتواں پروفیسر قمر رئیس اوارڈ پیش کیا گیا۔ یہ اوارڈ پچیس ہزار روپئے، شال اور مومنٹو پر مشتمل ہے۔ اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا میں ان کا براہ راست شاگرد نہیں ہوں لیکن وہ میری پی ایچ ڈی کے ممتحن تھے۔ اس مناسبت سے انھوں نے جو تین صفحوں کی رپورٹ لکھی تھی میں آج بھی اس کو بار بار دیکھتا ہوں اور اس سے میرا جذباتی رشتہ ہے۔ ڈاکٹر خالد علوی نے کہا میری پروفیسر قمر رئیس کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ اس میں ہندستان کی یادیں بھی ہیں اور تاشقند کی بھی۔ انھوں نے مجھے خط لکھ کر تاشقند آنے کی دعوت دی تھی اور پھر وہاں کی باتوں ایک طویل سلسلہ ہے۔ ڈاکٹر نگار عظیم نے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا میں ان کی شاگرد تو نہیں تھی لیکن ادب پڑھنے اور اس پر لکھنے کا جو بھی سلیقہ ہے انھیں کا فیضان ہے۔ میں اس لحاظ سے خود کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ ان سے تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ پروفیسر فاروق بخشی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا پروفیسر قمر رئیس پر گفتگو کرتے ہوئے بہت سی یادیں مجھے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں۔ میری پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع انھوں نے ہی تجویز کیا تھا اور مسلسل ہدایات دیتے رہے کہ کس طرح لکھنا ہے کن نکات پر غور کرنا ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا پروفیسر قمر رئیس ہمارے عہد کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقاد تھے، ان کو یاد کرنا صرف ایک ذات کو گفتگو کا مرکز بنانا نہیں ہے بلکہ اپنی علمی روایت کو نئے سرے سے دیکھنا اور اس کے رشتے کہاں کہاں سے ٹوٹ رہے ہیں اس پر نظر کرنے کا وسیلہ ہے۔ اس جلسے کی صدارت پروفیسر ارتضیٰ کریم نے کی۔ صدارتی تقریر میں انھوں نے گلو گیر آواز میں کہا میرا ان سے استاد و شاگرد کا نہیں باپ بیٹے کا رشتہ تھا۔ اس کے بعد ان کے آواز رندھ گئی اور وہ گفتگو نہیں کرسکے۔ سمینار کے تکنیکی اجلاس کل 29/ اکتوبر کو صبح 10بجے سے شام 5/ بجے تک ہوں گے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais