علی گڑھ سوسائٹی آف ہسٹری اینڈ آرکیالوجی کی جانب سے سر سید کی معنویت پر سمپوزیم کا انعقاد
علی گڑھ، 27 اکتوبر (ہ س)۔ علی گڑھ سوسائٹی آف ہسٹری اینڈ آرکیالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیر اہتمام آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں ممتاز مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب کی صدارت میں ”سر سید احمد خاں کی ہمہ گیر معنویت“ کے موضوع پر ایک سمپوزیم منعقد
پروفیسر شافع قدوائی خطاب کرتے ہوئے


علی گڑھ، 27 اکتوبر (ہ س)۔

علی گڑھ سوسائٹی آف ہسٹری اینڈ آرکیالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیر اہتمام آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں ممتاز مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب کی صدارت میں ”سر سید احمد خاں کی ہمہ گیر معنویت“ کے موضوع پر ایک سمپوزیم منعقد کیا گیا۔

گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پروفیسر سید علی ندیم رضاوی نے قرونِ وسطیٰ کے آثارِ قدیمہ کے میدان میں سر سید کی خدمات کا ایک جائزہ پیش کیا، جو مادی شواہد کو متنی تجزیے کے ساتھ جوڑنے کا ایک سائنسی مطالعہ ہے۔ انہوں نے سر سید کے اس مقالے کا حوالہ دیا جس میں عمارتوں کی تاریخ کے تعین میں اینٹوں کے سائز کے کردار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ اسے انھوں نے ایک سائنسی طریقہ کار بتایا۔ انہوں نے آثارالصنادید کو ایک بنیادی اور پیش رو تصنیف قرار دیا اور جدید دور کی اُن کوششوں پر تنقید کی جو اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ پروفیسر شافع قدوائی، ڈائرکٹر، سرسید اکیڈمی نے سائنسی علوم کی اشاعت اور جدید تعلیم کے فروغ میں سرسید کی کاوشوں پر روشنی ڈالی۔

پروفیسر عاصم صدیقی نے سر سید کی خدمات کو لسانی ماہر اور متون کے جدید مدیر کے طور پر اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ سر سید کے علمی رویے کے یہ پہلو آج کی نسلوں کے لیے قیمتی سبق رکھتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے مخالفین سے مخاصمت کے بجائے دلیل و استدلال کے ذریعے مکالمہ کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ پروفیسر فرحت حسن نے ”جدیدیت“ اور”جدید تعلیم“ جیسی اصطلاحات کو سمجھنے اور اس کا باریکی سے تجزیہ کرنے کا مشورہ دیاتا کہ اس سے جو مراد ہے وہ نظروں کے سامنے رہے اور اس بات پر غور ہو کہ سر سید ان تصورات سے جو سمجھتے تھے کیا اسے مغرب زدگی سے مختلف سمجھا جائے۔ اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر عرفان حبیب نے سمپوزیم کے مباحث کی تلخیص پیش کی اور حاضرین کو یاد دلایا کہ علی گڑھ برادری سر سید احمد خاں کی مرہونِ منت ہے۔ انہوں نے کہا:ہم جو کچھ ہیں، سر سید کی کوششوں کی بدولت ہیں، چاہے ہمیں یہ پسند ہو یا نہیں۔پروفیسر حبیب نے مزید کہا کہ اگر کہیں سرسید کے بعض نظریات یا اقدامات سے اختلاف بھی ہو، تاہم ان کے عہد کی مجبوریوں اور چیلنجوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ سمپوزیم میں شعبہ تاریخ و شعبہ انگریزی کے اساتذہ اور دیگر افراد نے شرکت کی۔ فیکلٹی آف سوشل سائنسزکے ڈین پروفیسر ستھیسن پورے پروگرام کے دوران موجود رہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ اور اسکالرز نے شرکت کی۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ


 rajesh pande