علی گڑھ, 17 ستمبر (ہ س)۔ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں شامل بعض دفعات نہایت تشویشناک ہیں، جو وقف کے شرعی و دینی تصور اور آئینی اصولوں سے متصادم ہیں ان خیالات کا اظہار جمعیۃعلماء ضلع علی گڑھ کے صدر سید قاری عبداللہ اور جنرل سیکرٹری مولانا عبدالمتعالی نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے انھوں نے مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ عبوری فیصلے میں اگرچہ کچھ دفعات پر حکمِ امتناعی جاری کیا ہے، لیکن کئی اہم شقیں بدستور برقرار ہیں جو بڑے خدشات کو جنم دیتی ہیں۔ خاص طور پر وقف بائی یوزر کے خاتمے کی تجویز اور غیر مسلم اراکین کی شمولیت کا معاملہ ایسے پہلو ہیں جو وقف کی دینی حیثیت اور اس کی اصل روح پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ہندوستان کی ہزاروں مساجد، مدارس، قبرستان اور دیگر اوقاف صدیوں سے عوامی استعمال اور اجتماعی روایت کی بنیاد پر تسلیم شدہ ہیں۔ اگر اس بنیاد کو ختم کر دیا گیا تو ان اداروں کی قانونی حیثیت مشکوک ہو جائے گی اور یہ پورے معاشرے میں بے یقینی پھیلانے کے مترادف ہوگا۔ اسی طرح وقف بورڈ اور کونسل میں غیر مسلموں کی شمولیت وقف کے دینی تشخص کو متاثر کرنے والا فیصلہ ہے، جو نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ اس کے بنیادی فلسفے کے خلاف بھی ہے۔جمعیۃ علماء ضلع علی گڑھ نے کہا کہ یہ وقت ٹکراؤ یا جذباتی نعروں کا نہیں بلکہ پرامن اور آئینی جدوجہد کا ہے۔ ہم پورے اعتماد کے ساتھ عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ آئین ہند کے اصولوں اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے وقف کی شرعی و قانونی حیثیت کا مکمل تحفظ کرے گی۔انھوں نے مزید کہا کہ جمعیۃ اپنی قانونی و عوامی جدوجہد کو آئندہ بھی پرامن انداز میں جاری رکھے گی۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ