جب زیادہ تر لیڈر تقریروں تک ہی محدود رہ جاتے ہیں تو نریندر مودی مزید آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ یاترا یا سفر کو جن سمپرک میں اور وقت کو جن سمویدنا میں تبدیل کر دیتے ہیں ہے۔ وہ اوڈیشہ میں سنتھالی ہینڈلوم کو بحال کرنے والی ایک قبائلی خاتون کا جشن منا رہے ہیں، وہ پلوامہ کے پہلے نائٹ کرکٹ میچ پر جوش و خروش بڑھارہے ہوتے ہیں، وہ ‘وکست بھارت’ پر ہر شہری کی رائے طلب کرتے ہیں ، وہ انسانیت کے لئے ‘یوگا فار ہیومنٹی 2.0 ’کے ساتھ دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کے اس تعلق میں کوئی تصنع نہیں ہے - یہ جیا گیا ہے۔ یہ مصافحہ کرنے میں ، خطوط میں ، ریڈیو پر شیئر کی گئی کہانیوں میں اور اس کمیونٹی کے افتخار میں ہے جن کی آواز قومی بن جاتی ہے۔
جن سمویدنا لوگوں کی جدوجہد اور امنگوں کے لیے ہمدردی کی عکاسی کرتا ہے اور جن سمپرک ملک کے ہر کونے میں شہریوں کے ساتھ مسلسل رابطے کو یقینی بناتا ہے۔
‘چائے پہ چرچہ’ اورانتخابی حلقہ کی پہلی ریلیوں سے لے کر کثیر لسانی تقریروں تک جو مقامی فخر کا احترام کرتی ہیں - وہ لوگوں سے ملتے ہیں، ان کی بات سنتے ہیں اور ہمدردی اور پالیسی دونوں کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔
ٹکنالوجی اس بندھن کو مضبوط کرتی ہے: ‘نمو ایپ’ شرکت کنندگان کو متحرک کرتی ہے، جب کہ ‘من کی بات’ شہریوں کی کہانیوں کو قومی تحریکوں میں تبدیل کردیتی ہے۔
بحرانوں اور روزمرہ کی حکمرانی میں یکساں طور پر ہمدردی کے اشارے – جیسے، غم زدہ خاندان کو تسلی دینا یا جوانوں کے ساتھ تہوار منانا - اسکیموں اور اصلاحات کے ذریعے بڑے پیمانے پر فراہمی کے ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ فائدہ اٹھانے والوں کی آوازیں، شہریوں کے تجربات اور قابل پیمائش نتائج مل کر اعتماد کی تعمیر کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
مودی کی کچھ مشہور یاترائیں
وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی نریندر مودی کے سیاسی سفر کی تشکیل ایسے یاتراؤں سے ہوئی تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کا براہ راست تعلق ہے۔
• سومناتھ – ایودھیا رتھ یاترا (1990) : ایل کے اڈوانی کے لئے منظم ی گئی اس یاترا میں مودی نے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا، اس یاترا کا مقصد سومناتھ سے ایودھیا تک ثقافتی اقدار اور قومی افتخار کو واپس لانا تھا۔ اس سے آستھااور وقار پر مرکوز ایک اہم تحریک کو جنم دیا۔
Link: https://x.com/modiarchive/status/1740979057897177592
• ایکتا یاترا (1991-92) : یہ یاترا سری نگر کے لال چوک پر قومی پرچم لہرانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، جس کی قیادت مودی کر رہے تھے۔ یہ ہندوستان کے اتحاد اور آزادی کا ایک مضبوط مظاہرہ تھا۔
Link: https://x.com/modiarchive/status/1832640742533296450
• سوارنم گجرات سنکلپ جیوت رتھ یاترا (2010): بطور وزیر اعلی مودی نے گجرات کے قیام کے 50 سال مکمل ہونے کا جشن منایا۔ اس نے لوگوں کے درمیان ترقی اور تعاون پر مبنی‘‘سنہری گجرات’’ کے وعدے کا اشتراک کیا۔
ثقافتی رابطہ - تہذیبی اعتماد
مہم کی حکمت عملی سے آگے بڑھتے ہوئے پی ایم مودی کی ثقافتی رسائی تہذیبی اعتماد کے ساتھ شمولیت کو ملاتی ہے - ورثے کا دوبارہ دعویٰ کرنا اور پرامن بقائے باہم کا اشارہ دینا۔
‘من کی بات’ اور ‘جن پدما’ روزمرہ کی کامیابیوں اور گمنام شبیہوں کو ایک مشترکہ ‘راشٹریہ دیو منڈل ’ کو ابھارتے ہیں۔
شمولیت کا یہ دھاگہ ان کے بین المذاہب ثقافتی کلیہ سے بھی واضح ہے۔ ہندوستان بدھ،مسلم اور عیسائی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور اس میں شرکت کرتا ہے۔ کوریائی راہبوں کی زیارتوں اور عالمی بدھ کانفرنسوں کی میزبانی کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ وزیر اعظم کے مساجد کے دورے (اندور کے سیفی سے قاہرہ کے الحکیم اور ابوظہبی کے شیخ زائد تک) گرجا گھروں (سیکرڈ ہارٹ، دہلی؛ کولمبو)، بدھ مت کی عبادت گاہوں (بودھ گیا، لمبنی، سارناتھ، کشی نگر) اور بیرون ملک مقیم مندروں (بی اے پی ایس ، یو اے ای) کی یاترائیں سبھی مذاہب کے تئیں کا احترام کی واضح شناخت ہیں۔
ان بین المذاہب اور ثقافتی کوششوں کو وسیع تر بناتے ہوئے غیر ممالک میں ہندوستان کا‘‘بدھ - یدھ نہیں’’ کا پیغام،یوگا ڈپلومیسی اور فن پاروں کی وطن واپسی تکثیریت میں پنہاں ایک خوشگوار طاقت کی شناخت ہے۔
بحران کے دو ر میں جن سمویدنا
رابطہ کا وہی فلسفہ غیریقینی صورتحال کے لمحات میں اہم ہے، جب وزیر اعظم مودی لوگوں کے قریب آتے ہیں،انہیں یقین دہانی کے ساتھ بات کرتے ہیں اور ان کی جدوجہد کو شیئرکرتے ہیں۔ یہ اس وقت واضح ہوا جب انہوں نے کووڈ-19 وبائی امراض کے دوران سامنے آکر قیادت کی اور اپنی اختراعی بات چیت کے ذریعہ کووڈ کے خلاف جنگ کو ایک عوامی تحریک میں تبدیل کردیا۔ ان کے ٹیلی ویژن خطابات، من کی بات، گفتگو اور نمو ایپ آؤٹ ریچ نے پیچیدہ پالیسیوں کو جذباتی اپیلوں میں تبدیل کردیاجن کو شہریوں نے سنا اور ذمہ دار ومتحد محسوس کیا۔
بین الاقوامی سطح پر خواہ ویکسین ڈپلومیسی کو مربوط کرنا ہو یا آپریشن گنگا یا آپریشن دوست جیسے ریسکیو مشنز پر عوام کو اپ ڈیٹ کرنا ہو، پی ایم مودی کا ذاتی رابطہ - طلباء، خاندانوں اور امدادی عملہ سے براہ راست بات کرنا - حکومتی کارروائی پر اعتماد کو تقویت دیتا ہے۔
سکیورٹی کے بحرانوں کے دوران بھی اُڑی سے بالاکوٹ اور گلوان سے لے کر پہلگام تک ان کے الفاظ – ‘گھرمیں گھس کے ماریں گے’- یقین دہانی کے ساتھ مشترکہ عزائم قومی اعتماد کو ابھارتے ہیں۔
واضح پیغام رسانی، انسانی اشاروں اور علامتی کارروائیوں کے اس امتزاج نے - سرحد پر فوجیوں کے ساتھ دیوالی منانے سے لے کر متاثرہ خاندانوں کو تسلی دینے تک - نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بحران صرف چیلنجز ہی نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کے مواقع بھی بن جاتے ہیں۔ بحران کے وقت پی ایم مودی کے جن سمپرک اور جن سمویدنا کے ماڈل نے رابطہ کو اعتماد کے پل میں تبدیل کردیا ہے اور بے چینی کو اجتماعی لچک میں بدل دیا ہے۔
بحران کے وقت اس انسانی رابطے کی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔ جب چندریان-2 کو دھچکا لگا تو اسرو کے سربراہ کے سیون کو گلے لگانا یکجہتی کی علامت بن گیا۔ صفائی کے کارکنوں کے پاؤں دھونے جیسی کوششیں کسی تقریبات سے زیادہ ہیں۔ وہ وقار، شمولیت اور شکرگزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر عمل اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ہر شراکت اہمیت رکھتی ہے۔
انسانی لمس
یہ فلسفہ روزمرہ کی زندگی تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ پی ایم مودی کا جن سمپرک روزانہ کی بات چیت میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
‘پریکشا پہ چرچہ’ کے دوران بچوں کے تئیں ان کی گرمجوشی، نوجوانوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی ان کی منفرد صلاحیت کی بہترین مثال ہے۔
چھتیس گڑھ میں قبائلی برادریوں کے ساتھ براہ راست مصروفیت جیسی ان کی کوششیں اور ان کی حلف برداری کی تقریب میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے اراکین کو دعوت دینا تاریخی طور پر پسماندہ گروپوں تک ان کی رسائی کو ظاہر کرتا ہے۔ سننے اور بانٹنے کی یہ اعتماد تعلق کے احساس کو فروغ دیتی ہیں۔
انسانی چہرے کے ساتھ سفارت کاری
پی ایم مودی جن سمپرک اور جن سمویدنا کو اپنی سفارت کاری میں بھی شامل کرتے ہیں۔ عالمی رہنماؤں کے ساتھ ان کا ٹریڈ مارک گلے ملنا، عالمی استقبال کے کے طور پر نمستے کو اپنانا، یا یاتراؤں کے دوران علاقائی لباس پہننا یہ سب انسانی پل بناتے ہیں جو درجہ بندی کے نظریہ کو کمتر بناتے ہیں اور دوستی کو فروغ دیتے ہیں۔
سابرمتی آشرم میں چرخہ کات کر، غیر ملکی لیڈروں کے ساتھ گنگا آرتی میں شامل ہو کریا اقوام متحدہ میں یوگا کی قیادت کر کے وہ ثقافتی فخر کو ذاتی موجودگی کے ساتھ جوڑتے ہیں، جس سے ہندوستان کی روایات کو دنیا بھر میں قابل رسائی اور متعلقہ بنایا جاتا ہے۔
ایکشن میں قیادت
ان تمام اشاروں کے ذریعے - خواہ تسلی دینا ہو، جشن منانا ہو، یا محض تسلیم کرنا ہو - پی ایم مودی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ قیادت صرف پالیسی کے بارے میں نہیں بلکہ عمل کے بارے میں بھی ہے۔ ان کا جن سمپرک اور جن سمویدنا کا ماڈل ثابت کرتا ہے کہ عمل اکثر بے لفظ، ہمدردی، احترام اور تعلق کو تقریروں سے زیادہ طاقتور طریقے سے لے جا سکتے ہیں جو لوگوں کو عام اور تاریخی دونوں لمحات میں اپنے لیڈر سے منسلک کر دیتے ہیں۔
Link: https://x.com/modiarchive/status/1687832116564779008
• گجرات گورو یاترا (2002) : گجرات میں، مودی نے لوگوں سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے اور اعتماد بحال کرنے کے لیے ریاست بھر میں اس یاترا کی قیادت کی۔ اس نے لوگوں کو مشکل گھڑی کے بعد مضبوط، فخر اور ترقی کے بارے میں امید محسوس کرنے میں مدد کی۔
********
PM Modi’s Jan Sampark and Jan Samvedna
Link: https://x.com/modiarchive/status/1740979057897177592
• ایکتا یاترا (1991-92) : یہ یاترا
سری نگر کے لال چوک پر قومی پرچم لہرانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، جس کی قیادت مودی کر رہے تھے۔ یہ ہندوستان کے اتحاد اور آزادی
کا ایک مضبوط مظاہرہ تھا۔
Link: https://x.com/modiarchive/status/1832640742533296450
• سوارنم گجرات سنکلپ جیوت رتھ یاترا (2010):
بطور وزیر اعلی مودی نے گجرات کے قیام کے 50 سال مکمل ہونے کا جشن منایا۔ اس نے
لوگوں کے درمیان ترقی اور تعاون پر مبنی‘‘سنہری گجرات’’ کے وعدے کا اشتراک کیا۔
ثقافتی رابطہ - تہذیبی اعتماد
مہم کی حکمت عملی سے آگے بڑھتے ہوئے پی ایم مودی کی
ثقافتی رسائی تہذیبی اعتماد کے ساتھ شمولیت کو ملاتی ہے - ورثے کا دوبارہ دعویٰ کرنا اور پرامن بقائے باہم
کا اشارہ دینا۔
‘من کی بات’ اور ‘جن پدما’ روزمرہ کی کامیابیوں اور گمنام شبیہوں کو ایک مشترکہ ‘راشٹریہ دیو منڈل ’ کو ابھارتے ہیں۔
شمولیت کا یہ دھاگہ ان کے بین المذاہب ثقافتی کلیہ سے
بھی واضح ہے۔ ہندوستان بدھ،مسلم اور عیسائی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور
اس میں شرکت کرتا ہے۔ کوریائی راہبوں کی زیارتوں اور عالمی بدھ کانفرنسوں کی میزبانی
کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ وزیر اعظم کے مساجد کے دورے
(اندور کے سیفی سے قاہرہ کے الحکیم اور ابوظہبی کے شیخ زائد تک) گرجا گھروں (سیکرڈ
ہارٹ، دہلی؛ کولمبو)، بدھ مت کی عبادت گاہوں (بودھ گیا، لمبنی، سارناتھ، کشی نگر)
اور بیرون ملک مقیم مندروں (بی اے پی ایس
، یو اے ای) کی یاترائیں سبھی مذاہب کے
تئیں کا احترام کی واضح شناخت ہیں۔
ان بین المذاہب اور ثقافتی کوششوں کو وسیع تر بناتے
ہوئے غیر ممالک میں ہندوستان کا‘‘بدھ - یدھ
نہیں’’ کا پیغام،یوگا ڈپلومیسی اور فن
پاروں کی وطن واپسی تکثیریت
میں پنہاں ایک خوشگوار طاقت کی
شناخت ہے۔
بحران کے دو ر میں جن سمویدنا
رابطہ کا وہی فلسفہ غیریقینی صورتحال کے لمحات میں
اہم ہے، جب وزیر اعظم مودی لوگوں کے قریب
آتے ہیں،انہیں یقین دہانی کے ساتھ بات کرتے ہیں اور ان کی جدوجہد کو شیئرکرتے ہیں۔ یہ اس وقت واضح ہوا جب انہوں نے کووڈ-19 وبائی امراض کے دوران سامنے آکر قیادت کی اور اپنی اختراعی بات چیت کے ذریعہ
کووڈ کے خلاف جنگ کو ایک عوامی تحریک میں تبدیل کردیا۔ ان کے ٹیلی ویژن خطابات، من
کی بات، گفتگو اور نمو ایپ آؤٹ ریچ نے پیچیدہ پالیسیوں کو جذباتی اپیلوں میں تبدیل
کردیاجن کو شہریوں نے سنا اور ذمہ دار ومتحد محسوس کیا۔
بین الاقوامی سطح پر خواہ ویکسین
ڈپلومیسی کو مربوط کرنا ہو یا آپریشن گنگا یا آپریشن دوست جیسے ریسکیو مشنز پر
عوام کو اپ ڈیٹ کرنا ہو، پی ایم مودی کا ذاتی رابطہ - طلباء، خاندانوں اور امدادی
عملہ سے براہ راست بات کرنا - حکومتی کارروائی پر اعتماد کو تقویت دیتا ہے۔
سکیورٹی کے بحرانوں کے دوران بھی اُڑی سے بالاکوٹ اور گلوان سے لے کر پہلگام تک ان کے الفاظ – ‘گھرمیں
گھس کے ماریں گے’- یقین دہانی کے ساتھ
مشترکہ عزائم قومی اعتماد کو ابھارتے ہیں۔
واضح پیغام رسانی، انسانی اشاروں اور علامتی کارروائیوں
کے اس امتزاج نے - سرحد پر فوجیوں کے ساتھ دیوالی منانے سے لے کر متاثرہ خاندانوں
کو تسلی دینے تک - نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بحران صرف چیلنجز ہی نہیں بلکہ
لوگوں کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے کے مواقع بھی بن جاتے ہیں۔ بحران کے وقت پی ایم
مودی کے جن سمپرک اور جن سمویدنا کے ماڈل نے رابطہ کو اعتماد کے پل میں تبدیل کردیا
ہے اور بے چینی کو اجتماعی لچک میں بدل دیا ہے۔
بحران کے وقت اس انسانی رابطے کی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔
جب چندریان-2 کو دھچکا لگا تو اسرو کے سربراہ کے سیون کو گلے لگانا یکجہتی کی
علامت بن گیا۔ صفائی کے کارکنوں کے پاؤں دھونے جیسی کوششیں کسی تقریبات سے زیادہ ہیں۔
وہ وقار، شمولیت اور شکرگزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر عمل اس بات کی تصدیق کرتا ہے
کہ ہر شراکت اہمیت رکھتی ہے۔
انسانی لمس
یہ فلسفہ روزمرہ کی زندگی تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ پی ایم
مودی کا جن سمپرک روزانہ کی بات چیت میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
‘پریکشا پہ چرچہ’ کے دوران بچوں کے تئیں ان کی
گرمجوشی، نوجوانوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی ان کی منفرد صلاحیت کی بہترین مثال
ہے۔
چھتیس گڑھ میں قبائلی برادریوں کے ساتھ براہ راست مصروفیت جیسی ان کی کوششیں اور ان کی حلف برداری کی تقریب
میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے اراکین کو دعوت دینا تاریخی طور پر پسماندہ گروپوں تک
ان کی رسائی کو ظاہر کرتا ہے۔ سننے اور بانٹنے کی یہ اعتماد تعلق کے احساس کو فروغ
دیتی ہیں۔
انسانی چہرے کے ساتھ سفارت کاری
پی ایم مودی جن سمپرک اور جن سمویدنا کو اپنی سفارت کاری میں بھی شامل کرتے ہیں۔ عالمی
رہنماؤں کے ساتھ ان کا ٹریڈ مارک گلے ملنا، عالمی استقبال کے کے طور پر نمستے کو اپنانا، یا یاتراؤں کے دوران
علاقائی لباس پہننا یہ سب انسانی پل بناتے ہیں جو درجہ بندی کے نظریہ کو کمتر
بناتے ہیں اور دوستی کو فروغ دیتے ہیں۔
سابرمتی آشرم میں چرخہ کات کر، غیر ملکی لیڈروں کے
ساتھ گنگا آرتی میں شامل ہو کریا اقوام متحدہ میں یوگا کی قیادت کر کے وہ ثقافتی
فخر کو ذاتی موجودگی کے ساتھ جوڑتے ہیں، جس سے ہندوستان کی روایات کو دنیا بھر میں
قابل رسائی اور متعلقہ بنایا جاتا ہے۔
ایکشن میں قیادت
ان تمام اشاروں کے ذریعے - خواہ تسلی دینا ہو، جشن منانا ہو، یا محض تسلیم
کرنا ہو - پی ایم مودی نے یہ ظاہر کیا ہے کہ قیادت صرف پالیسی کے بارے میں نہیں
بلکہ عمل کے بارے میں بھی ہے۔ ان کا جن سمپرک اور جن سمویدنا کا ماڈل ثابت کرتا ہے
کہ عمل اکثر بے لفظ، ہمدردی، احترام اور تعلق کو تقریروں سے زیادہ طاقتور طریقے سے
لے جا سکتے ہیں جو لوگوں کو عام اور تاریخی دونوں لمحات میں اپنے لیڈر سے منسلک کر
دیتے ہیں۔
Link: https://x.com/modiarchive/status/1687832116564779008
• گجرات گورو یاترا (2002) : گجرات میں، مودی نے
لوگوں سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے اور اعتماد بحال کرنے کے لیے ریاست بھر میں اس یاترا
کی قیادت کی۔ اس نے لوگوں کو مشکل گھڑی کے بعد مضبوط، فخر اور ترقی کے بارے میں امید
محسوس کرنے میں مدد کی۔
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan