ایس ایس سی میں ہو رہی دھاندلی پر اساتذہ سے ملے منیش سسودیا
نئی دہلی، 7 اگست(ہ س )۔ عام آدمی پارٹی کے سینئر لیڈر اور دہلی کے سابق وزیر تعلیم منیش سسودیا سے جمعرات کے روز ایس ایس سی کی مختلف امتحانات کی تیاری کرانے والے اساتذہ نے ملاقات کی۔ اس دوران اساتذہ نے انہیں ایس ایس سی امتحانات میں ہو رہی دھاندلیوں سے
ایس ایس سی میں ہو رہی دھاندلی پر اساتذہ سے ملے منیش سسودیا


نئی دہلی، 7 اگست(ہ س )۔

عام آدمی پارٹی کے سینئر لیڈر اور دہلی کے سابق وزیر تعلیم منیش سسودیا سے جمعرات کے روز ایس ایس سی کی مختلف امتحانات کی تیاری کرانے والے اساتذہ نے ملاقات کی۔ اس دوران اساتذہ نے انہیں ایس ایس سی امتحانات میں ہو رہی دھاندلیوں سے آگاہ کیا۔ منیش سسودیا نے کہا کہ میں ہاتھ جوڑ کر بھارت سرکار سے گزارش کرتا ہوں کہ 70 لاکھ محنتی بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیل نہ کیجیے۔ میری دو اہم مانگیں ہیں: پہلی، 13 اگست سے شروع ہونے والی ایس ایس سی-سی جی ایل (CGL) امتحان، جس میں 30 لاکھ سے زائد طلباءشامل ہوں گے، اسے فوری طور پر ملتوی کیا جائے۔منیش سسودیا نے مرکز سے مطالبہ کیا کہ ان گھٹیا کمپنیوں کو فوراً ہٹایا جائے جنہوں نے امتحانی مراکز کو بدترین حالت میں پہنچا دیا ہے، اور جن پر پہلے ہی کئی گھوٹالوں کے سنگین الزامات ہیں۔ ان کی دوسری مانگ یہ ہے کہ جو امتحانات پہلے ہو چکے ہیں، انہیں بھی منسوخ کرکے دوبارہ منعقد کیا جائے۔ بھارت سرکار ملک کے نوجوانوں کو دشمن یا مخالف کی نظر سے نہ دیکھے، وہ تو صرف اپنی محنت کی کمائی ہوئی جائز نوکری مانگ رہے ہیں۔منیش سسودیا نے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام اتنا کمزور ہے کہ اسکول یا کالج کی پڑھائی کے بعد بھی طلباءکو اعلیٰ سطح کی کوچنگ لینی پڑتی ہے۔ اساتذہ نے بتایا کہ مرکز نے جس کمپنی کو ایس ایس سی امتحانات کرانے کی ذمہ داری دی ہے، وہ پہلے سے ہی ویاپم گھوٹالے میں ملوث رہی ہے۔ اس کمپنی نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی کئی بے ضابطگیاں کی ہیں۔ پھر بھی، مرکز نے اسے پورے ملک کے نوجوانوں کے مستقبل کی کنجی سونپ دی۔انہوں نے کہا کہ ایس ایس سی کے تحت مختلف امتحانات ہوتے ہیں جیسے جنرل، اسٹینوگرافر، اور سی جی ایل۔ ان امتحانات میں تقریباً 70 لاکھ نوجوان شریک ہوتے ہیں، جو 2-3 سال تک تیاری کرتے ہیں۔ لیکن اس کمپنی نے امتحان کرانے کے بجائے گویا 70 لاکھ بچوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے۔ امتحانی مراکز گائے کے باڑوں، نجی گھروں اور دور دراز علاقوں میں بنائے جا رہے ہیں۔سسودیا نے کہا کہ سوشل میڈیا پر غازی آباد سے ایک ویڈیو سامنے آیا جس میں بدھ کے دن ایس ایس سی کا امتحان تھا۔ امتحان لینے والی کمپنی نے ایک امیدوار کو ہی انویجیلیٹر (نگران) بنا دیا۔ یعنی جو بچہ امتحان دینے آیا، اسے ہی کہہ دیا گیا کہ تم اپنے ہی کمرے کے انویجیلیٹر بھی بن جا ۔ یہ سراسر مذاق ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر مرکز کو واقعی 70 لاکھ بچوں کا امتحان کرانا ہے تو کسی باصلاحیت، تجربہ کار اور باوسیلہ کمپنی کو چُنا جائے۔ موجودہ کمپنی نہ اہل ہے، نہ ہی اس کے پاس کوئی سہولت۔ کئی طلباءنے شکایت کی ہے کہ ما وس تک کام نہیں کر رہا تھا۔ بچوں کو 500 سے 700 کلومیٹر دور مراکز دیے گئے۔ کوئی بچہ غریب کسان یا مزدور کا بیٹا ہے، کسی نے ٹیوشن پڑھا کر پیسے جوڑے ہیں۔ کسی کو جے پور سے امتحان کے لیے انڈمان، کسی کو بہار سے کیرالہ، پنجاب کے طلباءکو تمل ناڈو میں سینٹر دیا گیا۔ یہ تو سراسر ناانصافی ہے۔منیش سسودیا نے کہا کہ اس کمپنی پر پہلے ہی کئی الزامات ہیں اور شاید یہ کسی بڑی سیاسی سفارش یا تعلق کی وجہ سے چنی گئی ہے۔ اب یہی کمپنی 70 لاکھ بچوں کے امتحانات کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔ یہ صرف بدعنوانی، بدنظمی اور نااہلی نہیں، بلکہ پورے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ کیا ہم دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس 70-80 لاکھ بچوں کا امتحان لینے کی اہلیت ہی نہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی حکومت کا سیاسی ایجنڈا ہو، لیکن 70 لاکھ بچوں کے مستقبل کے ساتھ مت کھیلیں۔ ان بچوں نے کئی سال محنت کی ہے۔ کسی مزدور کے بیٹے نے مزدوری سے فیس جوڑی، کسی کسان کے بیٹے نے کھیتی سے، تو کسی نے خود ٹیوشن پڑھا کر۔ یہ سب محنتی بچے ہیں، ان کی زندگی اور خوابوں کو برباد نہ کریں۔منیش سسودیا نے مطالبہ کیا کہ 13 اگست سے شروع ہونے والی سی جی ایل امتحان کو ملتوی کیا جائے۔ اس ناقص کمپنی کو فوراً ہٹاکر کسی اہل کمپنی کو ذمہ داری دی جائے۔ بچوں نے پہلے ہی بہت انتظار کیا ہے، اور اگر وہ گھروں یا اصطبلوں میں بیٹھ کر ٹوٹے ماوس کے ساتھ امتحان دیں گے، تو ان کا مستقبل برباد ہو جائے گا۔ کیا ایسے امتحانوں سے حکومت میں قابل لوگ آئیں گے؟ انہوں نے زور دیا کہ سیاسی مفادات اور تجارتی تعلقات الگ رکھ کر، امتحان کو منصفانہ طریقے سے کرایا جائے۔ 21ویں صدی میں بھارت میں کئی بہترین کمپنیاں موجود ہیں، کسی کو بھی چُنیے، بس ایسی کمپنی ہو جو بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنا سکے۔آخر میں، منیش سسودیا نے دوسری اہم مانگ رکھتے ہوئے کہا کہ جن بچوں کی امتحانات ہو چکی ہیں، اور جنہوں نے شکایت کی، ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں، انہیں بھی انصاف دیا جائے۔ وہ بچے نہ کسی سیاسی پارٹی کے رکن ہیں، نہ اپوزیشن کے کارکن، وہ صرف آئینی حق کے تحت نوکری چاہتے ہیں۔ ان کی امتحان منصفانہ ہو، اور انہیں ان کا حق دیا جائے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande