حقیقی آزادی کا حصول دستور کی مکمل پاسداری پر منحصر ہے
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز اور آل انڈیا مل? کونسل کے مشترکہ اجلاس میں مقررین کا اظہار خیال نئی دہلی، 12 اگست(ہ س)۔ ”آج ملک کی آزادی کو 79/ سال پورے ہوچکے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک کا بڑا حصہ نا انصافی اور نا برابری کا شکار ہے۔ ریاست پوری
حقیقی آزادی کا حصول دستور کی مکمل پاسداری پر منحصر ہے


انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز اور آل انڈیا مل? کونسل کے مشترکہ اجلاس میں مقررین کا اظہار خیال

نئی دہلی، 12 اگست(ہ س)۔

”آج ملک کی آزادی کو 79/ سال پورے ہوچکے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک کا بڑا حصہ نا انصافی اور نا برابری کا شکار ہے۔ ریاست پوری طرح جمہوریت باقی رکھنے میں ناکام ہے۔“ ان خیالات کا اظہار مشہور مصنف اور سماجی شخصیت جناب تشار گاندھی نے کیا۔ وہ بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی کے پڑپوتے بھی ہیں۔ وہ آل انڈیا ملی کونسل اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے مشرکہ اجلاس کو خطاب کر رہے تھے۔ یہ اجلاس ”منصفانہ سماجی نظام کے قیام میں آزادی کی بنیادی حیثیت“ کے موضوع پر منعقد ہوا۔

تشار گاندھی نے مزید کہا کہ ”آزادی کا تحفظ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ایک دوسرے پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے۔ ظلم کو ظلم کہتے رہنا بہت ضروری ہے۔ باپو کی پوری زندگی کا یہی پیغام ہے۔ انھوں نے خلافت تحریک میں مسلمانوں کا ساتھ اسی جذبے کے تحت دیا تھا۔“مجاہد آزادی شہید بھگت سنگھ کے بھانجے پروفیسر جگموہن سنگھ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ”ہم سب کے لیے کاکوری واقعہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ مختلف مذاہب اور طبقات کے لوگوں نے کس طرح ایک مقصد کے لیے جمع ہوکر کاکوری کے واقعے کو انجام دیا اور انگریز حکومت لرزا دیا۔ شہید بھگت سنگھ، شہید اشفاق اللہ خان، شہید رام پرشاد بسمل اور شہید راج گرو کی متحدہ قربانی کا پیغام ایکتا بھی سکھاتا ہے اور ملک سے محبت بھی سکھاتا ہے۔ آج ہمیں ان دونوں پیغاموں کی شدید ضرورت ہے۔“

مجاہد آزادی شہید اشفاق اللہ خان کے پوتے جناب اشفاق اللہ خان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”آج ہم سب کے لیے بہت شرمندگی اور فکر کی بات ہے کہ ہمارا ملک دوبارہ ا±سی طرح کے دور میں چلا گیا ہے جو دور انگریزی حکومت میں گزر چکا ہے۔ فرقہ پرستی نے اس ملک کی جمہوریت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں ہم سب ہندو مسلم سکھ عیسائی کو مل جل کر کاکوری ایکشن سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ شہید اشفاق اللہ خان نے اپنی ماں کو جو آخری خط لکھا تھا وہ حب الوطنی کا عظیم شاہکار ہے۔ شہید بھگت سنگھ نے اپنی جوانی کو داو¿ں پر لگا کر انگریزوں کے خلاف بغاوت کا نعرہ لگایا اور ہنستے کھیلتے پھانسی پر چڑھ گئے۔ شہید رام پرشاد بسمل نے اپنے ایک شعر میں آخری خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رکھ دے کوئی ذرا سی خاکِ وطن کفن میں۔“شعبہ تاریخ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ کے استاد پروفیسر وسیم راجہ نے آزادی کے تاریخی تناظر پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ ”ملک کی آزادی کی تاریخ اور دستور سازی کی تاریخ اپنے اندر بیش بہا اسباق رکھتی ہے۔ یہ اسباق پڑھ کر گزر جانے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ رک کر سوچنے اور عمل کرنے کے لیے ہیں۔ ہم سب کو ان واقعات کی طرف پوری توجہ کرنی چاہیے۔“آل انڈیا ملی کونسل دہلی کے صدر حاجی پرویز میاں نے کہا کہ ”ہم سب کو اپنے علماءاور دوسرے مذاہب کی شخصیات اور ان کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے اور آزادی کے بقاءو تحفظ کے لیے ہر حال میں جدوجہد کرتے رہنا چاہیے۔“آل انڈیا ملی کونسل کے کارگزار صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کہا کہ ”آج ملک میں مسلسل اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں جن ملک کے عوام میں ایک بار پھر غلامی کا احساس پیدا ہو رہا ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہمارا ملک آزاد بھی ہے یا نہیں؟ یہ صورت بہت تشویش ناک ہے۔ آل انڈیا ملّی کونسل نے اس سلسلے میں بہت جدوجہد کی ہے۔ آگے بھی یہ جدوجہد جاری رہے گی اور آزادی کے تحفظ کے لیے ہم لوگ مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔“انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسر محمد افضل وانی نے بہت شرح و بسط کے ساتھ منصفانہ سماج میں آزادی کی حیثیت پر گفتگو کی۔ انھوں نے خصوصیت کے ساتھ آزادی کے دانش ورانہ پہلو کو ابھارا اور کہا کہ آزادی کی حفاظت کے لیے ہر کوشش قابل قدر ہے، لیکن دانش ورانہ اور مفکرانہ جدوجہد سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے بغیر اصول و کلیات کا تحفظ نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے ہمیں آئی او ایس کے فکری کارواں میں شامل ہونا چاہیے۔“

پروفیسر محمد افضل وانی نے آزادی کے اسلامی تناظر کو ابھارتے ہوئے کہا کہ ”آج سے چودہ سال پہلے مدینہ منورہ میں ایک ذات نے پوری انسانی کو آزادی کا جو تصور دیا تھا، آج پوری دنیا اور اقوام متحدہ اسی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ جہالت وغربت اور ظلم و جور کے خاتمے کی آواز اور اس کا طریقہ کار سب سے پہلے ا±سی ذات نے بتایا تھا۔ آج ہم سب کو اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم خود بھی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پلٹیں اور آپ کے مشن کو آگے بڑھانے کی حتی الامکان کوشش کریں۔“آخر میں آل انڈیا ملی کونسل کے معاون جنرل سکریٹری شیخ نظام الدین نے تمام مقررین اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ ساتھ ہی آئی او ایس کے سکریٹری جنرل جناب محمد عالم اور آئی او ایس وملّی کونسل کے اسٹاف کا بھی شکریہ ادا کیا۔اجلاس کی نظامت شاہ اجمل فاروق ندوی نے انجام دی۔ انھوں نے ابتدا میں موضوع کا تعارف بھی پیش کیا۔ مفتی محمد جمال الدین قاسمی کی تلاوت سے اجلاس کا آغاز ہوا۔ اجلاس میں بڑی تعداد میں سامعین نے آن لائن اور آف لائن شرکت کی۔ ان میں آئی او ایس کے سکریٹری جنرل محمدعالم صاحب، ملی کونسل کے معاون جنرل سکریٹری جناب سلیمان خان صاحب کے علاوہ حافظ رشید چودھری صاحب آسام، جناب محمد حنیف کاتب صاحب چنئی، مفتی نافع عارفی صاحب پٹنہ، محترمہ افسر جہاں صاحبہ ایڈوکیٹ حیدرآباد، مولانا نجیب الرحمن ململی صاحب لکھنو¿، حاجی شہود عالم صاحب کلکتہ، جناب رافع صدیقی کلکتہ، جناب محمد عبدالباسط صاحب کلکتہ، جناب الیاس سیفی صاحب دہلی، جناب امتیاز احمد صاحب، جناب سہیل فقیہ صاحب ممبئی، محمد شکیب عالم، جناب پرویز باری، معین الدین خان فلاحی، جناب سلیم خان، جناب انجم نعیم صاحب، جناب حامد علی خان صاحب، مفتی امتیاز احمد قاسمی صاحب، جناب سہیل احمد صاحب، جناب محمد اکرم خان فلاحی صاحب، جناب عطائ الرحمن صاحب، جناب راشد احمد صاحب، محترمہ سمرہ فردوس، جناب جمال پرویز صاحب، جناب وسیم فہمی صاحب اور جناب محمد انور صاحب ودیگر معززین بھی شریک رہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande