واشنگٹن، یکم اگست (ہ س)۔ واشنگٹن ڈی سی میں فیڈرل سرکٹ اپیل کورٹ کے ججوں نے جمعرات کو صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے تجارتی شراکت دار ممالک پر وسیع محصولات ( ٹیرف) عائد کرنے کے اختیار پر سخت سوالات اٹھائے۔ بہت سے ججوں نے بار بار اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ٹرمپ 1977 کے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ (آئی پی اے) قانون کا استعمال کرتے ہوئے ٹیرف کو کیسے جوازفراہم کر سکتے ہیں؟
امریکی آن لائن اخبار 'پولیٹیکو' کی خبر کے مطابق جج جمی رینا نے کہا کہ 'میری ایک بڑی تشویش یہ ہے کہ آئی پی میں ٹیرف کا لفظ کہیں بھی نہیں بتایا گیا'۔ جج ٹموتھی ڈک نے کہا، میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آئی پی اے میں کانگریس کا ارادہ صدر کو ٹیرف شیڈول کو منسوخ کرنے کا مکمل اختیار دینا تھا جو اس نے برسوں کے گہرائی سے مطالعہ کے بعد اپنایا تھا۔ دیگر ججوں نے اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے ایک قانون کا استعمال کیا جس کا مقصد صدر کو بین الاقوامی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اختیارات دینا تھا تاکہ کانگریس کی ایک اہم ذمہ داری چھینی جا سکے۔ قابل ذکر ہے کہ جج جمی رینا کو اوباما نے اور جج ٹموتھی ڈک کی تقرری کلنٹن نے کی تھی۔
ایک کھچا کھچ بھرے کمرہ عدالت نے فروری اور اپریل کے درمیان دستخط کیے گئے ایگزیکٹو آرڈرز میں ٹرمپ کے عائد کردہ ٹیرف کو چیلنج کرنے والے دو مقدمات پر تقریباً دو گھنٹے کی زبانی بحث دیکھی۔ ایک مقدمہ نجی کمپنیوں اور دوسرا 11 جمہوری کنٹرول والی ریاستوں نے دائر کیا ہے۔ کچھ ججوں نے رائے دی کہ اگر صدر عدالتی جائزہ کے بغیر ایمرجنسی کا اعلان کر سکتے ہیں (جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی قسم اور مدت کے ٹیرف لگا سکتے ہیں)، تو ملک کے پیچیدہ اور دیرینہ تجارتی عمل کا ایک بڑا حصہ لازمی طور پر غیر ضروری ہو جائے گا۔
امریکہ کی این بی سی نیوز کے مطابق جمعرات کو، ٹرمپ کے پورے ٹیرف ایجنڈے کو وفاقی عدالت میں سخت امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔ وفاقی عدالت کا فیصلہ جلد متوقع ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی خبر کے مطابق، عدالت نے دنیا بھر میں ٹیرف لگانے کے ہنگامی اختیارات کے صدر ٹرمپ کے دعوے پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / عبدالواحد