لکھنؤ، 13 جون (ہ س)۔ علم و ادب کا ایک درخشاں باب آج دنیا کو الوداع کہہ گیا، معروف ماہرِ فارسی، ادیبہ، دانشور اور پدم شری ایوارڈ یافتہ پروفیسر ایمیریٹس آصفہ زمانی آج دوپہر 83 برس کی عمر میں انتقال فرما گئیں۔ اس کی اطلاع مرحومہ کے فرزند آصف زماں رضوی نے دی۔ مرحومہ کی نمازِ جنازہ ہفتے کی صبح 9 بجے ان کی رہائش گاہ سے عیش باغ قبرستان کے لیے روانہ ہوگی، جہاں صبح 10 بجے (یعنی ہفتے کے روز) تدفین عمل میں آئے گی۔
فرزند آصف زماں رضوی نے عزیز و اقارب، شاگردوں، اور محبین سے دعائے مغفرت کی اپیل کی ہے۔
درگاہ حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ فتح پور سیکری کے سجادہ نشین پیر زادہ رئیس میاں چشتی نے مرحومہ کے انتقال پر غم کااظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر آصفہ زمانی نہ صرف علم و ادب کی بلند پایہ شخصیت تھیں بلکہ ان کا وجود تہذیبی ورثے کی علامت تھا۔ ان کی علمی و تدریسی خدمات نے ہزاروں شاگردوں کی زندگیوں کو سنوارا اور وہ اردو فارسی زبان کی ترویج میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ان کی وفا ت سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جو طویل عرصے تک پُر نہیں کیا جاسکے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی جوار رحمت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا کرے۔
مرحومہ، جناب سید محمد اعجاز رضوی (سابق وزیر، حکومتِ اتر پردیش) کی زوجہ اور ڈاکٹر شیما رضوی (سابق وزیرِ مملکت، حکومتِ اتر پردیش) کی والدہ تھیں۔ وہ نہ صرف لکھنؤ یونیورسٹی میں فارسی شعبے کی صدر رہ چکی تھیں بلکہ یوپی اردو اکادمی کی سابق چیئرپرسن بھی تھیں۔ ان کی خدمات کو حکومتِ ہند نے 1999 میں ''صدرِ جمہوریہ کا اعزاز برائے شرفِ تدریس'' (Certificate of Honour by President of India) سے نوازا، جس کے سبب انہیں دو سال کی سروس ایکسٹینشن بھی دی گئی۔
پروفیسر آصفہ زمانی کا علمی سفر شاندار اور قابلِ رشک رہا۔ وہ میرٹ اسکالرشپ ہولڈر رہیں، اور یو جی سی ریسرچ فیلوشپ کے تحت 1975 سے تحقیقی سرگرمیوں سے وابستہ رہیں۔ ان کے زیرِ نگرانی سات طلبہ نے پی ایچ ڈی مکمل کی، اور ان کے 200 سے زائد تحقیقی مقالات بھارت، پاکستان، ایران اور امریکہ کے مختلف علمی جرائد میں شائع ہوئے۔
انھوں نے دنیا بھر میں ہندوستانی تہذیب، ادب اور فارسی زبان کی نمائندگی کی، جن میں نمایاں مقامات امریکہ (شکاگو)، ایران (شیراز، تہران، کرمان) اور پاکستان (حیدرآباد سندھ، کراچی) شامل ہیں۔ ان کا تحقیقی مقالہ ''دویل رانی خضر خاں '' پر شکاگو میں پیش کیا گیا، جو ''بہترین مقالے'' کے طور پر منتخب ہوا۔
ان کی علمی اور تدریسی خدمات کے اعتراف میں متعدد اداروں اور کمیٹیوں کی رکنیت بھی حاصل رہی، جن میں لکنؤ یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کولکاتا یونیورسٹی، امیروددولہ لائبریری، انڈو-فرنچ ایسوسی ایشن، ایران ایجوکیشنل سوسائٹی اور آل انڈیا فخر الدین کمیٹی شامل ہیں۔
مرحومہ کی پیدائش 22 مارچ 1942 کو لکھنؤ میں ہوئی۔ وہ مشہور شاعر و حکیم، حافظ قاری سید بدرالدین ''نفیسی'' کی صاحبزادی تھیں۔ ان کی اولاد میں بیٹے آصف زماں رضوی (ایم بی اے، ایل ایل بی) اور دختر مرحومہ ڈاکٹر شیما رضوی شامل ہیں، جو اردو ادب اور سیاست میں نمایاں خدمات انجام دے چکی تھیں۔ اللہ مرحومہ کو جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔
---------------
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد