غزہ،یکم جون(ہ س)۔فلسطینی تنظیم حماس نے مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے غزہ میں جنگ بندی کے بارے میں موقف کو غیر منصفانہ اور مکمل طور پر اسرائیل کی طرف داری قرار دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نے وٹکوف کے پیش کردہ غزہ سے متعلق مجوزہ منصوبے کو مسترد نہیں کیا بلکہ اسے مذاکرات کی بنیاد کے طور پر قابل قبول سمجھا ہے۔حماس نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ اس نے غزہ میں اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ کے دوران پیش کی گئی امریکی جنگ بندی تجویز پر اپنا جواب ثالثوں کے حوالے کر دیا ہے۔ تنظیم کے ایک باخبر ذریعے کے مطابق، جواب مثبت ہے، تاہم اس میں جنگ بندی کے مستقل نفاذ کی ضمانت پر زور دیا گیا ہے۔حماس نے اپنے جواب میں اس شرط کا اظہار کیا ہے کہ دو ماہ کی مجوزہ جنگ بندی کے دوران اسرائیل کی جانب سے فائر بندی کی ضمانت امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ دیں۔مزید برآں، حماس نے مطالبہ کیا ہے کہ رفح بارڈر کراسنگ پر عائد سفری پابندیاں ہٹائی جائیں، امدادی سامان کی آمد و رفت کو یقینی بنایا جائے اور فائر بندی کے پہلے دن ہی اسرائیلی افواج 2 مارچ سے پہلے کے مقامات سے پیچھے ہٹ جائیں۔تنظیم نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ پہلے ہی دن سے غیر مستقیم مذاکرات شروع کیے جائیں تاکہ مستقل جنگ بندی پر اتفاق ممکن ہو، اور ثالث اس عمل کو اس وقت تک جاری رکھیں جب تک مکمل معاہدہ نہ ہو جائے۔یہ اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے حماس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی جنگ بندی منصوبے کو تسلیم کرے اور یرغمالیوں کو رہا کرے، ورنہ تنظیم کو صفح? ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔یہ دھمکیاں اس وقت سامنے آئیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی ’انتہائی قریب‘ ہے۔حماس کی جانب سے زندہ اور جاں بحق یرغمالیوں کی وہی تعداد پیش کی گئی ہے جو اسٹیو وٹکوف کی تجویز میں شامل ہے۔ایک فلسطینی ذریعے نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ حماس نے ثالثوں کو تحریری اور سرکاری جواب دے دیا ہے، جس میں امریکی منصوبے کے بارے میں مثبت رویہ اپنایا گیا ہے، تاہم اس پر زور دیا گیا ہے کہ جنگ بندی مستقل ہو، اسرائیلی فوج مکمل طور پر پیچھے ہٹے، اور دس فلسطینی قیدیوں کو تین مراحل میں رہا کیا جائے۔ہفتے کے روز جاری کردہ بیان میں حماس نے کہا کہ معاہدے کی صورت میں ’اسرائیلی قید سے دس زندہ افراد کو رہا کیا جائے گا، جبکہ 18 جاں بحق افراد کی باقیات بھی حوالے کی جائیں گی، اس کے بدلے ایک مخصوص تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی طے پائے گی۔‘بیان کے مطابق، اس اقدام کا مقصد مستقل جنگ بندی، اسرائیلی انخلا، اور غزہ میں انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے دوران اغوا کیے گئے 251 افراد میں سے 57 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے کم از کم 34 کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔غزہ میں جاری انسانی بحران کے باعث اسرائیل پر عالمی دباو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دو ماہ سے جاری محاصرے کے باوجود جو امداد دی جا رہی ہے، وہ صرف ’سمندر میں ایک قطرہ‘ کے برابر ہے۔جمعے کے روز اقوام متحدہ کے انسانی امور سے متعلق ادارے اوچا کے ترجمان ینس لائیرکے نے کہا: غزہ اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ بھوکا علاقہ بن چکا ہے، جہاں 100 فیصد آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔اسی ہفتے واشنگٹن نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے امریکی تجویز پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، تاہم اس کی مکمل تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔مذاکرات سے واقف ذرائع کے مطابق، امریکی منصوبے میں 60 دن کی جنگ بندی شامل ہے، جسے 70 دن تک توسیع دی جا سکتی ہے۔ پہلے ہفتے میں حماس پانچ زندہ اور نو جاں بحق یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جس کے بدلے اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ دوسرے ہفتے میں بھی اسی نوعیت کا تبادلہ متوقع ہے۔حماس کے حملے میں سات اکتوبر 2023 کو اسرائیلی ذرائع کے مطابق 1218 افراد مارے گئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔اس حملے کے جواب میں اسرائیلی کارروائی کے دوران اب تک غزہ میں 54321 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے ہیں جنہیں اقوام متحدہ قابلِ اعتماد مانتی ہے۔تقریباً 20 ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ مارچ کے وسط میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوبارہ آغاز کے بعد یہ صورتحال مزید بگڑ گئی۔چھ ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے بعد 17 مئی سے اسرائیل نے اپنے حملے تیز کر دیے، اس موقف کے ساتھ کہ ان کا مقصد حماس کا خاتمہ اور باقی یرغمالیوں کی بازیابی ہے۔ہفتے کی شام اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ جنوبی اسرائیل میں غزہ سے کئی راکٹ داغے گئے، تاہم وہ غیر آباد علاقوں میں گرے۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan