وقف ترمیمی بل کے خلاف ملک گیر علماء و مشائخ کا سخت احتجاج
آل انڈیا
سنی جمعیۃ العلماء ورضا اکیڈمی کے زیر اہتمام ہنگامی اجلاس میں بل کو مسلمانوں کے
مذہبی امور میں مداخلت قرار دیا گیا
ممبئی ،
3 اپریل (ہ س)،
ملک
بھر کے علما اور مشائخ نے وقف ترمیمی بل 2024 کو مسترد کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کے
مذہبی امور میں مداخلت قرار دیا ہے۔ لوک سبھا میں تقریباً 12 گھنٹے کی بحث کے بعد
یہ بل رات 2 بجے منظور کر لیا گیا، اور توقع ہے کہ راجیہ سبھا میں بھی اسے منظوری
مل جائے گی، کیونکہ وہاں بھی مسلم مخالف جماعتوں کو اکثریت حاصل ہے۔ اس بل کی
منظوری کے بعد مسلم حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے اور ملک بھر میں اس کے
خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔
ممبئی
کی ہانڈی والی مسجد میں آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء اور رضا اکیڈمی کے زیراہتمام
ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں بڑی تعداد میں علما، ائمہ مساجد اور مدارس کے
اساتذہ شریک ہوئے۔ مقررین نے اس بل کو مسلمانوں کے مذہبی تشخص پر حملہ قرار دیتے
ہوئے شدید احتجاج کیا۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے رضا اکیڈمی کے سربراہ الحاج محمد
سعید نوری نے کہا کہ یہ بل مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر حملہ اور مختلف برادریوں کے
درمیان نفرت پیدا کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آئینی دائرے میں رہتے
ہوئے اس کے خلاف سڑکوں سے لے کر سپریم کورٹ تک قانونی جنگ لڑی جائے گی۔
مولانا
اعجاز احمد کشمیری نے کہا کہ یہ بل دراصل مسلمانوں کی وقف املاک پر قبضہ کرنے کی
ایک سازش ہے۔ انہوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ کے اس بیان کو بھی تنقید کا نشانہ
بنایا جس میں کہا گیا تھا کہ بل سب کو قبول کرنا ہوگا۔ مولانا کشمیری نے سوال
اٹھایا کہ اگر مسلم وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کیا جا سکتا ہے تو کیا رام
مندر سمیت دیگر مندروں کی انتظامیہ میں بھی مسلمانوں کو شامل کیا جائے گا؟
مولانا
امان اللہ رضا خان نے بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تین طلاق،
پھر سی اے اے اور این آر سی، اور اب وقف کی زمینوں پر قبضے کی کوششیں کی جا رہی
ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کے ذریعے مسلم خواتین کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی جا
رہی ہے۔
مولانا
خلیل الرحمٰن نوری نے اپوزیشن کی بعض جماعتوں پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ
بی جے پی ایک دن اپنے اتحادیوں کو بھی کنارے لگا دے گی، لیکن شاید ابھی نتیش کمار
اور چندرا بابو نائیڈو کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ مولانا محمد عباس رضوی نے وزیر
اقلیتی امور کرن رجیجو کے اس بیان پر طنز کیا جس میں انہوں نے بل کو مسلمانوں کے
لیے امید کی کرن قرار دیا تھا۔
قاری
جمال علیمی نے کہا کہ حکومت مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے تاکہ ان کی مذہبی
شناخت کو ختم کیا جا سکے۔ مولانا ظفر الدین رضوی نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ
مسلمان خوفزدہ ہونے کے بجائے آئینی دائرے میں رہ کر اس کے خلاف آواز بلند کریں۔
مولانا
عظمت علیمی اور مولانا جہانگیر القادری نے کہا کہ وقف ترمیمی بل 2024 کسی بھی صورت
میں قابل قبول نہیں ہے۔ سماجی کارکن عرفان ڈیوٹے نے کہا کہ جو پارٹیاں برسوں تک
مسلمانوں کے ووٹوں سے اقتدار میں آئیں، آج ان کا اصل چہرہ سامنے آ گیا ہے، اس لیے
مسلمانوں کو انہیں پہچان لینا چاہیے۔
اجلاس
میں شریک دیگر علما میں مولانا فاروق مسعودی، مفتی نور الحسن علیمی، قاری محمد
رئیس فاروقی، مولانا غلام مصطفیٰ رضوی، مولانا حاتم طائی، مولانا امجد علی برکاتی،
قاری غلام مصطفیٰ نظامی، قاری ارشاد نظامی، مولانا غلام محی الدین رضوی، مولانا
عیش اختر بستوی، قاری رضوان اعظمی، قاری اسرائیل برکاتی، شاہد رضا بنارسی، مولانا
توکل حسین شریفی، قاری امام الدین، قاری گلزار، حافظ جنید رضا رشیدی، صوفی محمد
عمران مصطفوی، امجد بھائی گوونڈی اور ناظم خان رضوی سمیت سیکڑوں علما شامل تھے۔
ہندوستھان
سماچار
--------------------
ہندوستان سماچار / نثار احمد خان