حجاب اسلام کا نمایاں شعار، اس پر کسی بھی قسم کا حملہ دراصل مذہبی آزادی پر ضرب کے مترادف: ضیاء الدین صدیقی
حجاب اسلام کا نمایاں شعار، اس پر کسی بھی قسم کا حملہ دراصل مذہبی آزادی پر ضرب کے مترادف: ضیاء الدین صدیقیاورنگ آباد ، 20 دسمبر (ہ س)۔ مسلم نمائندہ کونسل کے صدر اور وحدتِ اسلامی کے کل ہند امیر ضیاء الدین صدیقی نے کہا ہے کہ حجاب اسلام کا نمایاں شع
PROTEST MAHA MUSLIM BODIES CONDEMN


حجاب اسلام کا نمایاں شعار، اس پر کسی بھی قسم کا حملہ دراصل مذہبی آزادی پر ضرب کے مترادف: ضیاء الدین صدیقیاورنگ آباد ، 20 دسمبر (ہ س)۔ مسلم نمائندہ کونسل کے صدر اور وحدتِ اسلامی کے کل ہند امیر ضیاء الدین صدیقی نے کہا ہے کہ حجاب اسلام کا نمایاں شعار ہے اور اس پر کسی بھی قسم کا حملہ دراصل مذہبی آزادی پر ضرب کے مترادف ہے۔ انہوں نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ایک حالیہ عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ناقابلِ برداشت قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ پٹنہ سے سامنے آنے والی خبر کے مطابق ڈاکٹروں میں تقرر نامے تقسیم کرنے کی تقریب کے دوران ایک باحجاب مسلم خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا گیا جو نہ صرف غیر مہذب تھا بلکہ مذہبی حساسیت کو بھی مجروح کرنے والا تھا۔ اس واقعے کے نتیجے میں خاتون کا چہرہ چند لمحوں کے لیے بے پردہ ہو گیا، جس پر مسلم حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

ضیاء الدین صدیقی نے کہا کہ اس واقعے نے مذہبی اور ملی سطح پر اضطراب پیدا کر دیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں اس کے خلاف جلوس، دھرنے اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ کئی مقامات پر انتظامیہ کو یادداشتیں پیش کی گئیں، جبکہ کشمیر سے کیرالہ اور پنجاب سے بنگال تک اس عمل کی کھلی مذمت کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اب بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کر چکا ہے۔

انہوں نے پردے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلامی شریعت میں پردے کو ایک بنیادی مقام حاصل ہے اور موجودہ دور میں بھی اس کی معنویت اہلِ علم پر واضح ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کا طرزِ عمل یا تو لاعلمی کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر وہ غرور جو دوسروں کو کمتر سمجھنے کی سوچ کو جنم دیتا ہے۔

انہوں نے موہن بھاگوت کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندو راشٹر کے تصور کو بار بار دہرانا دراصل اسی طرح کی سوچ کو تقویت دیتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مذہبی شناخت اور جغرافیائی شناخت کو خلط ملط کرنا ایک خطرناک رجحان ہے، جسے مسلمان کسی صورت قبول نہیں کر سکتے۔

ضیاء الدین صدیقی نے کہا کہ آر ایس ایس کے نظریہ سازوں نے تہذیبی قومیت کا ایسا تصور پیش کیا ہے جس میں رسم و رواج کو عقیدے پر فوقیت دی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اسی سوچ کے تحت طلاق کے خاتمے، وراثتی قوانین، بابری مسجد کے فیصلے، سی اے اے، این آر سی، ایس آئی آر اور وقف ترمیمی ایکٹ 2025 جیسے اقدامات سامنے آئے ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نتیش کمار کا موجودہ عمل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس پر مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ یہی ہے کہ وہ عوامی طور پر معافی مانگیں اور آئندہ ایسے رویے سے باز رہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ خاموش نہ رہیں، اپنی آواز بلند کریں اور مختلف ذرائع سے اپنا احتجاج درج کرائیں، کیونکہ کم از کم اتنا ہونا ہی چاہیے کہ ناراضگی واضح طور پر سامنے آئے۔

ہندوستھان سماچار

--------------------

ہندوستان سماچار / جاوید این اے


 rajesh pande