بھارت نے مساوی آب و ہوا کی کارروائی کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کیا
بیلیم،08نومبر(ہ س)۔سی او پی 30 کے قائدین کے اجلاس میں 07 نومبر 2025 کو بھارت کا قومی بیان پیش کرتے ہوئے، برازیل میں بھارت کے سفیر جناب دنیش بھاٹیا نے مساوات، قومی حالات، اور مشترکہ مگر مختلف ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں کے اصولوں پر مبنی موسمیاتی
بھارت نے مساوی آب و ہوا کی کارروائی کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کیا


بیلیم،08نومبر(ہ س)۔سی او پی 30 کے قائدین کے اجلاس میں 07 نومبر 2025 کو بھارت کا قومی بیان پیش کرتے ہوئے، برازیل میں بھارت کے سفیر جناب دنیش بھاٹیا نے مساوات، قومی حالات، اور مشترکہ مگر مختلف ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں کے اصولوں پر مبنی موسمیاتی اقدام کے تئیں ملک کے مستقل عزم کا اعادہ کیا۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کی 30ویں کانفرنس آف پارٹیز (سی او پی 30) 10 سے 21 نومبر 2025 تک بیلیم، برازیل میں منعقد ہو رہی ہے۔بھارت نے پیرس معاہدے کی دسویں سالگرہ کے موقع پر سی او پی 30 کی میزبانی پر برازیل کا شکریہ ادا کیا اور ریو سمٹ کے 33 سالہ تاریخی ورثے کو یاد کیا۔ بھارت کے بیان میں کہا گیا کہ یہ اجلاس عالمی حدت کے چیلنج کے خلاف عالمی رد عمل پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ اس بات کا بھی موقع ہے کہ ریو سمٹ کے اس ورثے کا جشن منایا جائے جہاں مساوات اور مشترکہ مگر مختلف ذمہ داریوں و متعلقہ صلاحیتوں (سی بی ڈی آر-آر سی) کے اصولوں کو اپنایا گیا تھا، جنہوں نے بین الاقوامی ماحولیاتی نظام بشمول پیرس معاہدے کی بنیاد رکھی۔بھارت نے برازیل کے ”ٹروپیکل فاریسٹس فارایور فیسلٹی“ (ٹی ایف ایف ایف) کے قیام کے اقدام کا خیرمقدم کیا، جسے اس نے حاری جنگلات کے تحفظ کے لیے اجتماعی اور پائیدار عالمی عمل کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا اور بطور مبصر اس فیسلٹی میں شمولیت اختیار کی۔وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کے کم کاربن ترقیاتی راستے پر روشنی ڈالتے ہوئے، بیان میں کہا گیا کہ 2005 سے 2020 کے درمیان بھارت نے اپنے مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی اخراجی شدت میں 36 فیصد کمی کی ہے اور یہ رجحان بدستور جاری ہے۔ غیر فوسل توانائی اب بھارت کی نصب شدہ صلاحیت کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ بن چکی ہے، جس سے ملک نے اپنے نظر ثانی شدہ قومی طے شدہ شراکت (این ڈی سی) کا ہدف مقررہ مدت سے پانچ سال پہلے ہی حاصل کر لیا ہے۔بیان میں مزید اس بات پر زور دیا گیا کہ بھارت نے اپنے جنگلاتی اور درختوں کے رقبے میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور 2005 سے 2021 کے درمیان 2.29 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مساوی اضافی کاربن سِنک پیدا کیا ہے۔ اسی کے ساتھ بھارت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا قابل تجدید توانائی پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہے، جس کی نصب شدہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت تقریباً 200 گیگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی شمسی اتحاد (انٹرنیشنل سولر الائنس) جیسی عالمی پہل کاری اب 120 سے زائد ممالک کو متحد کر رہی ہے اور کفایتی شمسی توانائی کے فروغ کے ساتھ ساتھ جنوبی۔جنوب تعاون کو بھی فروغ دے رہی ہے۔بھارت نے اس بات پر زور دیا کہ پیرس معاہدے کے دس سال بعد بھی کئی ممالک کی قومی طے شدہ شراکتیں (این ڈی سی) مطلوبہ معیار سے کم ہیں اور اگرچہ ترقی پذیر ممالک پرعزم ماحولیاتی اقدامات کر رہے ہیں، تاہم عالمی سطح پر مجموعی عزم اب بھی ناکافی ہے۔ بیان میں اس امر کو اجاگر کیا گیا کہ بقیہ کاربن بجٹ کے تیزی سے کم ہوتے ذخیرے کے پیشِ نظر، ترقی یافتہ ممالک کو اخراج میں کمی کے عمل کو تیز کرنا چاہیے اور وعدے کے مطابق، مناسب اور قابل بھروسہ معاونت فراہم کرنی چاہیے۔اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ترقی پذیر ممالک میں پرعزم ماحولیاتی اہداف کے نفاذ کے لیے کفایتی مالیات، ٹیکنالوجی تک رسائی اور استعداد سازی ناگزیر ہیں۔ مزید کہا گیا کہ مساوی، قابل پیش گوئی اور آسان شرائط پر فراہم کی جانے والی ماحولیاتی مالی معاونت، عالمی ماحولیاتی اہداف کے حصول کی بنیاد بنی ہوئی ہے۔ بھارت نے دیگر ممالک کے ساتھ اشتراک کے لیے اپنی آمادگی ظاہر کی، تاکہ مشترکہ مگر مختلف ذمہ داریوں اور متعلقہ صلاحیتوں (سی بی ڈی آر-آر سی) کے اصولوں اور قومی حالات کی بنیاد پر پائیدار ترقی کی جانب پرعزم، جامع، منصفانہ اور مساوی طریقوں سے منتقلی کو ممکن بنایا جا سکے۔کثیر جہتی نظام سے اپنی وابستگی اور پیرس معاہدے کے ڈھانچے کے تحفظ و استحکام کے عزم کو دہراتے ہوئے، بھارت نے تمام ممالک سے اپیل کی کہ آئندہ دہائی کو صرف اہداف کی نہیں بلکہ عمل درآمد، لچک اور باہمی اعتماد و انصاف پر مبنی مشترکہ ذمے داری کی دہائی بنایا جائے۔ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande