میں ان کہانیوں کی طرف راغب ہوتی ہوں جوہندوستان کی مٹی میں جڑی ہوں: یامی گوتم
انٹرویو لوکیش چندر دوبے بالی ووڈ کی باصلاحیت اورسنجیدہ اداکارہ یامی گوتم نے اپنے کیرئیر کا آغاز فلم ’وکی ڈونر‘ سے کیا تھا اور اس کے بعد سے انہوں نے اپنی سادگی اور بہترین اداکاری سے ناظرین کے دلوں میں ایک خاص مقام بنالیا ۔ ’بدلا پور‘، ’قابل ‘ اور
Interview- Bollywood Actress Yami Gautam


انٹرویو

لوکیش چندر دوبے

بالی ووڈ کی باصلاحیت اورسنجیدہ اداکارہ یامی گوتم نے اپنے کیرئیر کا آغاز فلم ’وکی ڈونر‘ سے کیا تھا اور اس کے بعد سے انہوں نے اپنی سادگی اور بہترین اداکاری سے ناظرین کے دلوں میں ایک خاص مقام بنالیا ۔ ’بدلا پور‘، ’قابل ‘ اور ’اوڑی: دی سرجیکل اسٹرائیک‘ جیسی فلموں میں ان کے کرداروں نے ثابت کیا ہے کہ یامی صرف ایک بیوٹی آئیکون ہی نہیں، بلکہ ایک بہترین اداکار ہ ہیں جو ہر کردار میں گہرائی اور حقیقت پسندی لاتی ہیں۔

اب، وہ اپنی فلم ”حق“ کے لیے ایک بار پھر چرچا میں ہیں، جس میں وہ ایک ایسی خاتون کا کردار ادا کر رہی ہیں جو سچ اور انصاف کے لیے لڑتی ہے۔ اس خاص موقع پر یامی گوتم نے ہندوستھان سماچار کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اپنے کردار، تیاری اور سنیما میں خواتین کی بدلتی ہوئی تصویر کے بارے میں کھل کر بات کی۔

سوال: فلم ’حق‘ کا تعلق شاہ بانو کیس سے ہے، یہ خواتین کے حقوق پر کیا پیغام دیتی ہے؟

جواب: یہ فلم ایک تاریخی فیصلے سے متاثر ہے، لیکن یہ کسی کی سوانح عمری نہیں ہے۔ اس کی کہانی سچے واقعات اور فکشن کا حسین امتزاج ہے۔ شاہ بانو کے سفر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ یہ تکلیف دہ بھی ہے اور متاثر کن بھی، کیونکہ اس میں ایک عورت کا عزم ظاہر ہوتاہے۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس کیس کو چار دہائیاں گزر چکی ہیں، پھر بھی ہم آج بھی اس پر بحث کر رہے ہیں۔ یہ اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ شاید خود شاہ بانو نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کی لڑائی اتنی بڑی علامت بن جائے گی۔ مجھے اس کیس کے بارے میں صرف اخبارات اور مضامین کے ذریعے معلوم ہوا، لیکن ایک اداکارہ کے طور پر، میری کوشش یہ تھی کہ میں اپنے کردار کی روح کو صحیح معنوں میں مجسم کروں اور اس کی حساسیت کو ناظرین تک پہنچا سکوں۔

سوال: حساس موضوعات پر مبنی فلموں میں کام کرتے ہوئے کیا کبھی خوف یا پس وپیش محسوس کرتی ہیں؟

جواب: ایک فنکار کے طور پر، میں کسی بھی فلم کو صرف ایک نقطہ نظر سے دیکھتی ہوں، اس کا ٹون کیا ہے؟ کیا یہ تنازعہ بھڑکانے کے لیے بنی ہے یا معنی خیز بحث کو شروع کرنے کے لیے؟ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ میں ایک طویل عرصے سے فلم انڈسٹری میں ہوں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میں تنازعات کے لیے نہیں، بلکہ اپنے کام میں اپنی دیانتداری کے لیے جانی جاتی ہوں۔ میرا کام اپنے کردار کو سچائی سے پیش کرنا اور پھر سکون سے گھر لوٹنا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کسی فلم پر بات چیت نہیں ہوتی ہے تو اس کا وجود ادھوراہے۔ اس طرح کے موضوعات پر لوگوں کے ردِ عمل ہمیشہدوطرح کے ہوتے ہیں: یا تو وہ کہانی سے گہرئی سے متااثرہوتے ہیں، یا وہ اسے مکمل طور پر مسترد کر دیتے ہیں۔ اوسط جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ ایک فنکار کے طور پر، میرے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ،وہ یہ ہے کہ کہانی مجھے اپنے اندر کیسا محسوس کراتی ہے۔ وہ پہلا احساس میری حقیقی ترغیببن جاتا ہے۔ ایک بار جب میں کسی پروجیکٹ کے لیے ہاں کہتی ہوں، میں بغیر کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے پوری لگن کے ساتھ کام کرتی ہوں۔ فلم کا بنیادی ٹون اور پیغام پہلے ہی اسکرپٹ میں طے ہوتا ہے، باقی سب کچھ اسی کی توسیع ہے۔

سوال: فلم میں اردو زبان کے اثرات، اس کے لہجے اور ادب کو مستند طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے کی تیاری کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی؟

جواب: ہاں، میں نے اس رول سے بہت کچھ سیکھا۔ دراصل اس کردار کی تیاری کا پہلا مرحلہ - اردو کی شیرینی ،اس کی تہذیب اور اس کی نزاکت کو سمجھنا تھا۔ اندور سے ہمارے ڈکشن کوچ ادراک سر نے انتہائی خلوص اور صبر کے ساتھ اس سفر میں میری رہنمائی کی۔ ہر مکالمے میں صحیح وقفہ، نرمی اور جذباتی توازن برقرار رکھنا ایک چیلنج تھا۔ ہم نے بڑی تفصیل کے ساتھ مکالمے ترتیب ئے۔ بہت سی جگہوں پر، ہم نے سچائی کو برقرار رکھنے کے لیے تلفظ کے کچھ معمولی فرق کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا، کیونکہ حقیقی زندگی میں بھی، انسانی بول چال میں معمولی خامیاں ہوتی ہیں اوروہی سب سے زیادہ مستند محسوس ہوتی ہیں۔ میرے لیے، اردو سیکھنا صرف ایک زبان سیکھنے کے بارے میں نہیں تھا، بلکہ پوری ثقافت اور روح سے جڑنا تھا۔ اردو ایک بہت میٹھی اور دل سے بولنے والی زبان ہے۔ اس میں مکالمے بولے نہیں جاتے بلکہ محسوس کیے جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب ناظرین فلم دیکھیں گے، تو وہ ہر لفظ میں نزاکت، ہر نوٹ میں مٹھاس، اور ہماری پوری کوشش کی روح محسوس کریں گے۔

سوال: فلم کی طرح حقیقی زندگی میں بھی کبھی اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی؟

جواب: میرا ماننا ہے کہ اعمال الفاظ سے زیادہ بلند آواز میں بولتے ہیں۔ اس لیے، میں کوشش کرتی ہوں کہ جب بھی مجھے موقع ملے ، میں اپنے کام کے ذریعے ایسے مسائل کو اجاگر کروں جن پر چرچا ضروری ہے، کیونکہ یہیں سے حقیقی تبدیلی شروع ہوتی ہے۔ میں حال ہی میں ایک صحافی دوست سے اسی موضوع پر بات کر رہی تھا۔ ماضی میں، اداکارائیں اپنی شادی یا بچوں کو چھپاتی تھیں کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس سے ان کے کیریئر پر اثر پڑے گا۔ آج، میں خود ایک ماں ہوں، اور یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اب لوگوںکا تصور نہیں بدلتا ہے۔ یہ تبدیلی ہمارے معاشرے اور صنعت ،دونوں کی پختگی کی علامت ہے۔ ماضی میں، اسمیتا پاٹل اور شبانہ اعظمی جیسی بہترین اداکاراوں نے حدیں توڑ یں اور آج، کام کرنے والی ماو¿ں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جو ہمارے دور کی ایک اہم کامیابی ہے۔

سوال: جب آپ سکرپٹ پڑھتی ہیں تو آپ کے لیے سب سے اہم کیا ہوتا ہے - کہانی، کردار یا اس کا پیغام؟

جواب: میرا جواب سادہ ہے: کہانی۔ کسی بھی پروجیکٹ کا انتخاب کرنے سے پہلے میں کہانی کی اصلیت کو دیکھتی ہوں کہ کیا اس میں کچھ نیا کہنے کی طاقت ہے یا نہیں۔ آج کے دور میں، ہمیں ’کانتارا‘ جیسی ثقافتی اعتبار سے بھرپور اور جڑوں والی کہانیوں کی اشد ضرورت ہے ، ایسی کہانیاں جو ہندوستانی مٹی کی خوشبو لئے ہوئے ہوں اور ہماری لوک زندگی، روایات اور روحانی ورثے کی سچائی سے عکاسی کریں۔ ہمارے ملک کی ہر ریاست کی لوک داستانوں، عقائد اور جذبات کی اپنی دنیا ہے اور وہ انسانی جذبات سے اس قدر مالا مال ہیں کہ ہر کہانی ایک منفرد سبق بن جاتی ہے۔ مجھے ایسی کہانیوں سے گہرا لگاو¿ہے کیونکہ میں خود ہماچل کی سرزمین سے ہوں، جہاں فطرت، لوک داستان اور روحانیت زندگی کا حصہ ہیں۔ شاید اسی لیے ایسی کہانیاں میرے دل کو چھوتی ہیں۔ میرے نزدیک کسی بھی پروجیکٹ کو قبول کرنے کے لیے تین بنیادی باتیں ہیں: کہانی، کردار اور ہدایت کار۔ کہانی کو میرے اندر کچھ جگانا چاہیے، کردار مجھے ایک فنکار کے طور پر نئی سمتوں میں سوچنے کی ترغیب دے اور ہدایت کار کا ویژن اس پورے سفر کو معنی بخشے۔ جب یہ تینوں عناصر متوازن طریقے سے اکٹھے ہوتے ہیں، تب ہی میں اس کردار کو دل و جان سے قبول کرتی ہوں۔

سوال: میٹروپولیٹن شہروں سے دیہات تک خواتین کی جدوجہد، فلم کے ذریعے آپ کس سوچ کو جگانا چاہتی ہیں؟

جواب: ایک فنکار کے طور پر، جب مجھ سے پوچھا جاتا ہے،”آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟“ تو میں ایمانداری سے کہوں کہ میں تھوڑا سا کنفیوز ہو جاتی ہوں (مسکراہٹ کے ساتھ)۔ کیونکہ میں اپنے آپ کو نہ مبلغ سمجھتی ہوں اور نہ ہی استاد۔ میرا کام سچائی اور جذبات کے ساتھ کہانی کو زندہ کرنا ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ جب بھی مجھے ایک ایسی خاتون کا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے جو اعتماد، وقار اور اختیار کو مجسم کرتی ہے، میں اسے پورے دل سے اپناتی ہوں۔ میں نے جو بھی کردار ادا کیا ہے اس میں بے خوفی میری سب سے بڑی طاقت رہی ہے، اور یہ جاری رہے گی۔ میرے لیے ”حق“ صرف ایک فلم نہیں ہے بلکہ خواتین کے حقوق اور عزت نفس کے لیے جاری جدوجہد کا حصہ ہے۔ یہ اس جذبے کی ایک فنکارانہ علامت ہے جو مساوات اور انصاف کی بات کرتی ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو 1980 کی دہائی میں نکاح جیسی فلموں نے اسی بحث کو جنم دیا تھا۔ وقت بدل گیا ہے، ذہنیت بدل گئی ہے، لیکن آج بھی خواتین کو ہر سطح پر نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ میری خواہش ہے کہ جب ناظرین اس فلم کو دیکھیں ہیں تو ان کے اندر کچھ بیدار ہو،کوئی سوال، کوئی جذبہ ، کوئی نئی سوچ۔ مرد ہو یا عورت، ہر کوئی اس کہانی سے مثبتیت، حساسیت اور انصاف پر ایک نیا اعتمادلے کر جائے ۔ یہ ہماری کوششوں کی حقیقی کامیابی ہو گی۔

سوال: کردار کی تیاری کے لیے آپ کا کیا طریقہ کار ہے؟

جواب: ایسے کردار ادا کرتے وقت بہت سے اصول ہوتے ہیں، لیکن سب سے اہم جذباتی ذہانت، انسان کی جذباتی لہروں کوگہرائی سے سمجھنا۔ یہ محض بیرونی تیاری سے نہیں آتا بکہ یہ جسمانیت کے بعد سب سے پیچیدہ پہلو ہوتاہے۔ میں اس فلم کے لیے کبھی بھی حقیقی شخص سے نہیں ملی، لیکن کہانی سچے واقعات سے متاثر تھی۔ اس لیے، میں نے اپنے ذہن میں اس کی ایک تصویر بنائی، یہ تصور کرتے ہوئے کہ 70 اور 80 کی دہائی میں ایک عورت کو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کھڑے ہونے کے لیے کتنی طاقت اور ہمت جمع کرنی پڑی ہوگی۔ اس دور کا درد، خیانت، جدوجہد اور ضد، میں سب کچھ اس کردار میں محسوس کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے برعکس میری پچھلی فلم ”آرٹیکل 370“ میں سب کچھ مختلف تھا۔اس میں جھانی کا کردار ایک تربیت یافتہ افسر، تعلیم یافتہ، نظم و ضبط اور جسمانی طور پر مضبوط تھا۔ اس کردار کے لیے، میں نے گھنٹوں ہتھیاروں کی تربیت اور تکنیکی تربیت لی۔ میں نے مطالعہ کیا اور مشق کی، کیونکہ اس کردار کی دنیا بالکل مختلف تھی۔ اس بار، کردار مکمل طور پر جذباتی گہرائی پر منحصر تھا، لہٰذا باڈی لینگوج میں ہر اشارہ اور ہر وقفہ عین مطابق ہونا ضروری تھا۔ مجھے یقین ہے کہ جب آپ کسی کردار کی جذباتی ساخت کو سمجھ لیتے ہیں، تو اس کا طرز عمل اور اس کی نقل وحرکت فطری طور پر اپنے آپ بہنے لگتے ہیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / محمد شہزاد


 rajesh pande