ٹرمپ کا منصوبہ اس وقت بہترین آپشن مگر مسئلہ فلسطین کا حل نہیں ہے: روس
ماسکو،14اکتوبر(ہ س)۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ غزہ کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر عمل درآمد کے بعد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی طرف سے پیر کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ بات ماسکو میں صحافیوں سے لاور
ٹرمپ کا منصوبہ اس وقت بہترین آپشن مگر مسئلہ فلسطین کا حل نہیں ہے: روس


ماسکو،14اکتوبر(ہ س)۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ غزہ کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے پر عمل درآمد کے بعد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی طرف سے پیر کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ بات ماسکو میں صحافیوں سے لاوروف کی ملاقات کے دوران سامنے آئی۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب میں لاوروف نے کہا کہ ماسکو غزہ کے لیے ٹرمپ کے منصوبے کو میز پر موجود بہترین آپشن کے طور پر دیکھتا ہے لیکن یہ مسئلہ فلسطین کا حل نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے منصوبے میں صرف غزہ شامل ہے۔ اس منصوبے میں فلسطینی ریاست کے بارے میں شرائط شامل ہیں لیکن ان کا تفصیلی ہونا ضروری ہے۔ مغربی کنارے کی قسمت کا تعین ہونا چاہیے۔روسی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں 1967 کی سرحدوں کے اندر ایک مکمل علاقائی فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط رکھی گئی ہے۔ روس بین الاقوامی برادری کے بہت سے ارکان کی طرح ان قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے مزید کہا مجھے یقین ہے کہ حالیہ منصوبوں پر فی الحال عمل کیا جا رہا ہے۔ ہم اس کوشش میں کامیابی کی امید رکھتے ہیں۔ یقیناً اس منصوبے کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے گا۔ اہداف درمیان میں نہیں بدلیں گے اور یہ کہ کھیل کے اصول تبدیل نہیں ہوں گے۔لاوروف نے مزید کہا کہ ایک بار جب یہ منصوبہ مکمل طور پر نافذ ہو جائے گا، فلسطینی ریاست کے قیام کا عمل شروع ہو جائے گا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی بنیاد پر ٹھوس معاہدے طے کیے جائیں گے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ماسکو غزہ کے حوالے سے ٹرمپ پلان کے فریم ورک کے اندر طے پانے والے معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ روسی عہدیدار نے پیر کو مصر میں ہونے والے شرم الشیخ امن سربراہی اجلاس کی کامیابی کے لیے اپنی امید کا بھی اظہار کیا۔انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ مصر نے امریکہ کے ساتھ مل کر شرم الشیخ میں ہونے والی امن سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کو دعوتیں بھیجی ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ روس سربراہی اجلاس میں کیوں شرکت نہیں کر رہا ہے، نہوں نے کہا کہ میں صرف اس بات کی نشاندہی کر سکتا ہوں کہ دعوت نامے سربراہی اجلاس کے میزبانوں کی طرف سے آئے تھے۔جمعرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور حماس نے اپنے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے منصوبے کے پہلے مرحلے پر ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔ شرم الشیخ میں دونوں فریقوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے بعد قطر، مصر اور ترکیہ کی شرکت اور امریکی نگرانی میں معاہدے تک پہنچا گیا۔یہ معاہدہ ٹرمپ کے تجویز کردہ منصوبے پر مبنی ہے جس میں جنگ بندی، اسرائیلی فوج کے بتدریج انخلا، قیدیوں کے تبادلے، غزہ کی پٹی میں فوری امداد کے داخلے اور حماس کو غیر مسلح کرنے کا کہا گیا ہے۔ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت غزہ کی پٹی ایک غیر سیاسی فلسطینی ٹیکنو کریٹک کمیٹی کے ذریعے عارضی عبوری حکومت کے تابع ہو گی۔ یہ عبوری حکومت روزمرہ کی عوامی خدمات اور میونسپل امور کے انتظام کی ذمہ دار ہوگی۔ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande