اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام”رنگِ سخن“ کے تحت شاعرات کا مشاعرہ اور صوفی محفل کا انعقاد
نئی دہلی،12 اکتوبر(ہ س)۔مشاعرہ صرف شعرا کا کلام سنانے کا نام نہیں بلکہ یہ سماج کے مختلف طبقات کے لیے ایک ایساوسیع پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں وہ مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا شعری اظہار کرسکتے ہیں جو شاعریا شاعرہ اور سامعین کے درمیان براہ راست را
اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام”رنگِ سخن“ کے تحت شاعرات کا مشاعرہ اور صوفی محفل کا انعقاد


نئی دہلی،12 اکتوبر(ہ س)۔مشاعرہ صرف شعرا کا کلام سنانے کا نام نہیں بلکہ یہ سماج کے مختلف طبقات کے لیے ایک ایساوسیع پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں وہ مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا شعری اظہار کرسکتے ہیں جو شاعریا شاعرہ اور سامعین کے درمیان براہ راست رابطہ کا مو¿ثر ذریعہ ہے۔گویا مشاعرہ سماجی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کا ایک اہم وسیلہ ہے۔لیکن ایسے مشاعرے خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جو صرف شاعرات پر مبنی ہو۔اردو خواتین شاعرات کو ایک جگہ اکٹھا کر ’رنگ سخن‘ کی محفل سجانا اپنے آپ میں ایک منفرد اور نیا تجربہ ہے، کیونکہ اس طرح کی ادبی محفلیں شاعرات کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے اور انھیں ادبی دنیا میں متعارف کرانے کے اہم پلیٹ فارم ہیں۔

گزشتہ شام اردو اکادمی، دہلی کے زیر اہتمام سینٹرل پارک، کناٹ پلیس میں”رنگ سخن“ کے عنوان سے اسی طرح کی ایک ادبی و ثقافتی محفل کا شاندار انعقاد کیا گیا۔ اس ادبی محفل کو دو نشستوں میںمنقسم کیا گیا تھا ، جس کی پہلی نشست میں مجلس شعر خوانی کا اہتمام کیا گیا۔جس میں ملک گیر شہرت کی حامل شاعرات مدعو کی گئیں۔مشاعرہ کی صدارت کہنہ مشق اور معروف شاعرہ تاجور سلطانہ نے کی جبکہ نظامت کی ذمہ داری نوجوان شاعر سلمان سعید نے انجام دی۔

سکریٹری اردو اکادمی /لنک آفیسر ڈاکٹررمیش ایس لعل ، صدر مشاعرہ تاجور سلطانہ اور اکادمی کے منتظمین کے ہاتھوں شمع روشن کرکے باضابطہ مشاعرے کا ا?غاز ہوا۔رنگ سخن کے اس مشاعرے میں تاجور سلطانہ، ڈاکٹر نصرت مہدی ،علینا عترت،ڈاکٹر سلمیٰ شاہین،ڈاکٹر انا دہلوی، مہک کیرانوی ، پریرنا پرتاپ، نوری پروین اور ہمانشی بابرہ نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ و مسرور کیا۔اس موقع پرسکریٹری محکمہ فن، ثقافت و السنہ حکومتِ دہلی ڈاکٹر رشمی سنگھ، ا?ئی اے ایس، مہمانِ اعزازی کی حیثیت سے شریک ہوئیں۔ سکریٹری اکادمی ڈاکٹر رمیش ایس لعل نے ڈاکٹر رشمی سنگھ کا گلدستہ سے استقبال کیا۔اس موقع پر ڈاکٹر رشمی سنگھ نے کامیاب مشاعرے کے انعقاد کے لیے اکادمی کے جملہ اراکین کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا” اردو اکادمی کے زیر اہتمام شاعرات کے اس مشاعرے میں آکر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔تمام شاعرات نے بہت خوبصورت انداز میں اپنا کلام پیش کیا ، یہاں ہمیں دل کو مسحور کردینے والی شاعری سننے کا موقع ملا جس پر ہمیں فخر محسوس کرنا چاہئے۔“ انھوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شعر و ادب کا سماج سے گہرا رشتہ ہے کیونکہ ادب سماج کا عکس ہوتا ہے جو معاشرے کے موجودہ مسائل اور انسانی اقدارکی ترجمانی کرتا ہے۔اس لیے نوجوان نسل کو شعر و ادب سے اپنا تعلق استوار کرنا چاہئے۔

رنگ سخن کی دوسری نشست میں بھوپال سے تشریف لائے معروف ”رنگ بینڈ“کے ذریعے ایک روح پرور صوفی محفل کا اہتمام کیا گیا۔اس درمیان محمد ساجد علی اور گروپ کے دیگر فنکاروں نے مشہور زمانہ قوالیاں اور نغمات گاکر سماں باندھ دیا۔ساجد علی نے امیر خسرو کے کلام ”موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ دے رنگیلے“ سے محفل کا ا?غاز کیا۔ اس کے بعد انھوں نے امیر خسرو کے ذریعے حضرت نظام الدین اولیاءکی شان میں لکھا گیا کلام پیش کیا۔علاوہ ازیں انھوں نے تو کجا من کجا ، بلھے شاہ ، کن فیکون کن، سانسوں کی مالاپہ سمروں میں، کل رات تم کہا ں تھے بتانا صحیح صحیح، بے حجابانہ وہ سامنے آگئے جیسے کلاسیکی اور موڈرن صوفی کلام پیش کرکے سامعین کو جھومنے پر مجبور کردیا۔ محفل میں جہاں دہلی کی عوام جذب و مستی میں نظر آئی وہیں کچھ غیر ملکی سیاح بھی موسیقی پرتھرکتے دکھائی دیئے۔صوفی محفل کی اس نشست میں سینکڑوں کی تعداد میںلوگوں نے شرکت کی جس میں شہریوں ، غیر ملکی، ادبی شخصیات، کاروباری اور طلباءکی ایک کثیر تعداد شامل رہی۔ پروگرام کے اختتام پراردو اکادمی کے سینئر اکاو¿نٹ آفیسر ویریندر سنگھ کٹھیت، پبلی کیشن آفیسر محمدہارون اور عزیر حسن قدوسی نے گلدستہ سے محمد ساجد علی اور ان کے گروپ کی عزت افزائی کی۔

قارئین کے ذوق و شوق کی تسکین کے لیے مشاعرہ میں پیش کیے گئے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں:

ہم اگر خون وفا روزکیا کرتے ہیں

یوں تو ہنس ہنس کے سبھی سے وہ ملا کرتے ہیں

(تاجور سلطانہ)

میں کیا کروں کہ تیری انا کو سکوں ملے

گر جاو¿ں ٹوٹ کر، بکھر جاو¿ں کیا کروں

(نصرت مہدی)

مقام ترک تعلق کیسے گزاریں ہم

تم ہی بتاو? تم ہی پہ یہ فیصلہ چھوڑا

(سلمیٰ شاہین)

چاند سے پوچھو یا پوچھو میرے دل سے

تنہا کیسے رات بتائی جاتی ہے

(انا دہلوی)

ایک لمحے کو تری سمت سے اٹھا بادل

اور بارش کی سی امید لگالی میں نے

(علینا عترت)

رونا ہی اگر ہوتا دل کھول کے رو لیتے

آنسو بھی ہمارے ہیں دامن بھی ہمارا ہے

(مہک کیرانوی)

فقط کہنے کو ہوتا ہے، یقینی پر نہیں ہوتا

جو گھر کو گھر بناتی ہے، اسی کا گھر نہیں ہوتا

(پریرنا پرتاپ)

تم گئے تو پھر میں نیا آئینہ نہیں دیکھا

لوٹ کر جب آوگے خود میں سجاو¿ں گی

(نوری پروین)

تیرا دیدار قضا ہوتا نہیںہے ہم سے

ہم تجھے دیکھنے والوں کی طرح دیکھتے ہیں

(ہمانشی بابرہ)

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande