فلسطیینیوں کی نسل کشی :غزہ کی آبادی میں چھ فیصد کی کمی ، 35 ہزار بچوں کی بھوک سے ہلاکت
غزہ ،02جنوری (ہ س )۔ اسرائیلی کی غزہ میں جاری جنگ کے نتیجے میں اب تک غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد مجموعی آبادی میں چھ فیصد کمی ہو گئی ہے۔ یہ بات غزہ میں قائم مرکزی فلسطینی ادارہ شماریات نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتائی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کو سا
اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی


غزہ ،02جنوری (ہ س )۔

اسرائیلی کی غزہ میں جاری جنگ کے نتیجے میں اب تک غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد مجموعی آبادی میں چھ فیصد کمی ہو گئی ہے۔ یہ بات غزہ میں قائم مرکزی فلسطینی ادارہ شماریات نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتائی ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل کو سات اکتوبر 2023 سے شروع کردہ جنگ کی وجہ سے نومبر 2023 سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزام کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ثبوت بین الاقوامی عدالت انصاف کا جنوری 2024میں دیا گیا حکم ہے۔ جس میں اسرائیل کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنی فوج کو نسل کشی سے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے اور اس بارے میں عدالت انصاف میں رپورٹ بھی جمع کرائے۔

دوسری جانب بین الاقوامی فوجداری عدالت بھی غزہ میں اسرائیل اور اس کی فوج کی خونریزی کے اندھے اور بلا امتیاز طریقوں کے سلسلے میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر چکی ہے۔

تب سے اب تک اسرائیلی وزیر اعظم کسی غیر ملکی دورے پر نہیں گئے ہیں۔ تاکہ عالمی سطح پر اسرائیلی وزیر اعظم کی جنگی جرائم اور ان کی گرفتاری کے لیے رائے عامہ کا اخلاقی دباو¿ سامنے نہ آ سکے۔البتہ اب اسرائیل کے سب سے بڑے سرپرست و اتحادی امریکہ نے انہیں 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کے لیے آنے کی دعوت دی ہے۔

یاد رہے اسرائیل غزہ میں لڑی جانے والی اپنی جنگ میں ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے جن میں سب سے زیادہ تعداد فلسطینی بچوں اور خواتین کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو شہری انفراسٹرکچر، فلسطینی آبادیوں، گھروں، مکانات، اسپتالوں، مساجد ، گرجا گھروں، تعلیمی اداروں ، سڑکوں اور بجلی و پانی ہی نہیں خوراک کی ترسیل کے نظام کو تباہ کیا ہے وہ بھی جنگی جرائم اور نسل کشی کے حربوں کی کڑی ہے۔ تاہم اسرائیل اور اسے مسلسل خوفناک تباہی پھیلانے کے لیے ہتھیار دینے والے اتحادی اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مرکزی فلسطینی ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق اسرائیل کی غزہ جنگ نے اب تک 55 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا ہے اور ایک لاکھ کے قریب کو غزہ کی پٹی چھوڑ جانے پر مجبور کر دیا ہے۔

ان اعدادو شمار کے مطابق اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاکتوں میں سے 500 45 سے زائد کی لاشیں اسپتالوں کے ریکارڈ کے مطابق دیکھی جا چکی ہیں جبکہ تقریباً گیارہ ہزار فلسطینیوں کی لاشیں لاپتہ ہیں کہ ان کے بارے میں خدشہ ہے کہ ان کی لاشیں ملبے کے نیچے دبی پڑی ہیں۔

اس طرح غزہ میں مجموعی آبادی 160000 تک کم ہو گئی ہے۔

واضح رہے غزہ کی آبادی 2،1 ملین ہے جس میں 18 سال سے کم عمر کے فلسطینی بچوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 47 فیصد ہے۔اسرائیل جو بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے احکامات بھی نہیں مانتا اس نے مرکزی فلسطینی ادارہ شماریات کے مرتب کردہ ان اعدادو شمار کو بھی بے بنیاد قرار دیا ہے۔

جبکہ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر دفاع یا اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر اکثر غزہ میں کی گئی تباہی کو مثال بنا کر اپنے دوسرے پڑوسیوں اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو دھمکاتے ہیں۔

مرکزی فلسطینی ادارہ شماریات کے مطابق غزہ کی 22 فیصد آبادی خوراک کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے بد ترین تباہی سے گذر رہی ہے۔ ان میں 3500 بچے بھی بھوک کی وجہ سے ہلاکت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ خیال رہے اسرائیلی فوج نے تباہ کر دیے گئے غزہ کی مسلسل ناکہ بندی کر رکھی ہے تاکہ خوراک اور ادویات بھی غزہ میں کم سے کم سے ہی جا سکیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / عطاءاللہ


 rajesh pande