سرینگر 24 دسمبر (ہ س) کشمیری شالوں کو خود کشمیر کا عنوان سمجھا جاتا ہے، جو خطے کی شناخت کے تانے بانے میں بنے ہوئے ایک لازوال فن کی نمائندگی کرتی ہے۔ مغل شہنشاہوں کے درباروں کی زینت بننے سے لے کر سری نگر کے شاہی محلوں کو سجانے تک، کشمیر کی شالوں نے صدیوں سے ذہنوں اور دلوں کو مسحور کر رکھا ہے۔ بہترین شہتوش یا پشمینہ اون سے تیار کردہ اور اس کے بوٹا ڈیزائن کی خصوصیت والی، یہ شالیں جغرافیائی حدود کو عبور کر چکی ہیں، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں پذیرائی اور مانگ ہے۔ اپنی فعالیت سے آگے بڑھتے ہوئے، کشمیری شالیں معیار، عیش و عشرت اور خوبصورتی کا مظہر ہیں، جو تاریخ، ورثے اور فن کاری کی بھرپور ٹیپسٹری کی نمائش کرتی ہیں۔ تاہم، ان کی پائیدار میراث کے پیچھے، کاریگروں کی نسلوں کی لگن اور ہنر پوشیدہ ہے، جن کا فن اور محنت ہر شاندار تخلیق میں جان ڈالتی ہے لیکن ان کی کہانیاں اکثر پردہ میں ہی رہتی ہیں۔ کشمیری شالوں کی ابتدا 11ویں صدی عیسوی سے ہوئی، اس خطے میں شال کی بُنائی کا آغاز ہوا، جب یہ بنیادی طور پر سردی کے خلاف حفاظتی لباس کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ 13ویں صدی تک، شالوں نے اپنے عملی مقصد سے حیثیت اور انداز کی علامتوں میں منتقل ہونا شروع کر دیا۔
تاہم جس انداز اورلگن سے کاریگر اس صنعت سے وابستہ تھے یہ صنعت اب دم توڑ رہی ہے کیونکہ اس کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ جو لوگ ہاتھ سے جس تعداد میں شال تیار کر رہے تھے انہوں نے اس کام کو کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔اس سلسلے میں اس کاروبار سے وابستہ ایک کاروباری فاروق احمد کا کہنا ہے کہ ایک تو اب ہاتھ کے بجائے مشین سے اس کام کو انجام دیا جاتا ہے ۔جبکہ اس کے علاوہ شال کے اس کاروبار میں شال کا ڈپلیکیٹ بھی بازار میں آچکا ہے جس کی وجہ سے خریداری کے دوران خریدار کےلۓ یہ پہچان کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اصلی اور ڈپلیکیٹ شال کون سا ہے جبکہ دوسری جانب اب پنجاب کے امرتسر شہر سے بھی شال اب وادی کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں لاۓ جاتے ہیں جسکی وجہ سے سیدھے سادھے خریدار کےلۓ پہچان کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ کل ملاکر دیکھا جائے تو یہ صنعت اب کشمیر میں دن بدن دم توڈ رہی ہے۔ ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mir Aftab