ممبئی
21 دسمبر (ہ س)۔ کئی سیاسی رہنماؤں نے، خاص
طور پر اپوزیشن سے، نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت
کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے جس میںموہن
بھاگوت نے کئی نئے مندر، مسجد تنازعات کے دوبارہ سر اٹھانے پر تشویش کا اظہار کیا
ہے اور کہا ہے کہ ایودھیا رام مندر کی تعمیر کے بعد کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ اس
طرح کے مسائل کو اٹھا کر ’’ہندوؤں کے لیڈر‘‘ بن سکتے ہیں اور کہا کہ اسے جاری نہیں
رکھا جا سکتا۔
تاہم، مسلم
سیاسی رہنماؤں اور علماء نے سنگھ پریوار
اور اس سے منسلک تنظیموں کی کارروائیوں پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے سوال بھی
اٹھایا ہے کہ سماج میں تفرقہ پیدا کرنے والے آر ایس ایس کے نظریے کی پیروی کرنے
والوں پر کاروائی کیوں نہں کی جاتی۔
کانگریس
کے رہنما حسین دلوائی نے بھاگوت کے ریمارکس کی تعریف کی، لیکن انہوں نے جاری سماجی
تناؤ میں آر ایس ایس کے کردار پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا، موہن بھاگوت کا
بیان درست ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف تشدد، ہجومی تشدد، ان کے گھروں کو مسمار کرنے
اور دیگر جابرانہ کارروائیوں کا کیا ہوگا؟ یہ حرکتیں آر ایس ایس کے نظریے کی پیروی
کرنے والوں کی طرف سے کی جاتی ہیں، انہیں روکنے کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا
جاتا؟
دلوائی
نے بھاگوت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تنظیم کے اندر تقسیم کرنے والی طاقتوں کے خلاف
مضبوط موقف اختیار کریں۔ انہوں نے کہا، موہن بھاگوت کا احترام کرتا ہوں، آر
ایس ایس کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اور وہ ایسے عناصر کو نکال سکتا ہے، لیکن ایسا
نہیں ہوتا۔ بھاگوت جی کو واضح کرنا چاہیے کہ ہندوتوا اصل میں کس چیز کی نمائندگی
کرتا ہے - کیا یہ بقائے باہمی کے بارے میں ہے، یا مسلمانوں کے خلاف ہے؟
مہاراشٹر
کانگریس کے رہنما نسیم خان نے بھی بھاگوت کے بیان کا خیرمقدم کیا لیکن اس پر عمل
درآمد پر شک ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا، اس طرح کے ریمارکس سننا اچھا لگتا ہے،
لیکن ان کا کیا اثر ہوتا ہے؟ ہندوستان آج بڑے پیمانے پر تنازعات کا سامنا کر رہا
ہے - مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ہجومی تشدد جاری ہے، اور یہاں تک کہ آئین
پر حملہ ہو رہا ہے۔ خان نے مزید کہا کہ آر ایس ایس اتحاد کی بات کرتی ہے لیکن
تقسیم پر عمل کرتی ہے، اور یہ گڑبڑ پیدا کرنے والے لوگ سنگھ پریوار سے گہرے تعلق
رکھتے ہیں۔
این سی
پی (ایس پی) کے رہنما اور سابق ایم پی مجید میمن نے بھی ان خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے بھاگوت کے بیان کی تعریف کی، تاہم ایسے معاملات پر عملی طور پر خاطیوں کو
سزا دلانے میں عدم دلچسپی اور کبھی کبھار روکاوٹ پیدا ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
میمن نے کہا، بھاگوت اکثر اچھے بیانات دیتے ہیں، لیکن ان پر شاذ و نادر ہی
عمل ہوتا ہے۔ انہیں آر ایس ایس کے اندر ان مسائل کو حل کرنا چاہیے اور تشہیر کے
بجائے حقیقی تبدیلی کو یقینی بنانا چاہیے۔
میمن نے
حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ سلوک پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا، وزیر
اعظم کا 'سب کا ساتھ، سب کا وکاس' کا نعرہ ایک سازش لگتا ہے۔ مسلمانوں کے گھروں کو
بلڈوز کیا جاتا ہے، مساجد کو مسمار کیا جاتا ہے، اور انہیں دہشت گرد قرار دیا جاتا
ہے۔ بھاگوت کے الفاظ کو عمل میں بدلنے کی ضرورت ہے۔
آل انڈیا
علماء بورڈ کے صدر نعیم حسنی نے بھی بھاگوت کے ریمارکس کا خیرمقدم کیا اور بی جے پی
کے دیگر لیڈروں سے اس کی پیروی کرنے کی اپیل کی۔
ہندوستھان
سماچار
--------------------
ہندوستان سماچار / نثار احمد خان