غزہ کے یرغمالیوں کی رہائی کا انتظار، دولت مند اسرائیلیوں کی جانب سے انعامات کی پیشکش
تل ابیب، 22اکتوبر(ہ س)۔ سال بھر سے جاری غزہ جنگ میں جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کے کم ہوتے ہوئے امکانات سے مایوس بعض اسرائیلی کاروباریوں نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک مختلف راستہ تلاش کیا ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کے لیے مالی انعام کی پیشکش کی ہے جو
غزہ یرغمالیوں کی رہائی


تل ابیب، 22اکتوبر(ہ س)۔

سال بھر سے جاری غزہ جنگ میں جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے کے کم ہوتے ہوئے امکانات سے مایوس بعض اسرائیلی کاروباریوں نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک مختلف راستہ تلاش کیا ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کے لیے مالی انعام کی پیشکش کی ہے جو انھیں آزاد کروا کر لے آئیں۔سوڈا سٹریم کے سابق سی ای او ڈینیئل برنبام نے پیر کو اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اعلان کیا کہ وہ غزہ سے کسی اسرائیلی قیدی کو زندہ بچا کر لانے والے کو 100,000 ڈالر نقد یا بٹ کوائن دیں گے جس کے بعد انہیں تقریباً 100 کالز موصول ہوئیں۔اسرائیل میں قائم سوڈا کمپنی کے سابق چیئرمین نے مزید کہا کہ ان کی پیشکش کی میعاد بدھ کی نصف شب تک تھی۔برنبام نے کہا کہ زیادہ تر کالیں مذاق، دھمکیوں یا لعنت پر منبی تھیں لیکن 10 سے 20 درست ہو سکتی ہیں اور مزید تصدیق کے لیے اسرائیلی حکام کو منتقل کر دی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے انہیں فون کیا وہ رقم کی بجائے (غزہ سے) بحفاظت واپس نکل آنے کی فکر میں تھے۔برنبام نے کہا، حماس سے غیر وابستہ کچھ شہریوں کے پاس قیدیوں کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات ہوں گی۔ انہوں نے کہا، ہو سکتا ہے کہ ایسے شہری ہوں جو سمجھتے ہوں کہ بہت ہو گیا اور وہ زندہ رہنا چاہتے ہوں۔برنبام نے کہا ، مجھے سب کی واپسی کی تو توقع نہیں ہے (لیکن) اگر ہمیں صرف ایک یرغمال بھی واپس مل جائے تو مجھے خوشی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی حکومت سے اجازت طلب نہیں کی۔ نیز کہا، میرے خیال میں مالی انعام کا عنصر نجی شعبے سے آنا چاہیے تو دیکھتے ہیں کہ اس سے کام ہوتا ہے یا نہیں۔ ہم اب تک جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اس کا فائدہ نہیں ہوا۔

برنبام کے اقدام کی خبر سن کر اسرائیلی نڑاد امریکی رئیل اسٹیٹ ڈویلپر ڈیوڈ ہیگر نے بھی رقم جمع کرنا شروع کر دی۔ انہوں نے اتوار کو اسرائیل کے چینل 12 کو بتایا کہ وہ دوستوں کی مدد سے تقریباً 400,000 ڈالر پہلے ہی جمع کر چکے تھے۔ 10 ملین ڈالر تک جمع کرنے کے لیے دوسرے تاجروں سے تعاون کرنے کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ان میں سے ہر ایک نے 100,000 ڈالر دیئے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اپنی قسمت بنانے والے ہیگر نے کہا، یہاں ایسے آئی ٹی کے لوگ ہیں جنہوں نے بھاری رقم کمائی ہے اور یہ ان کے لیے بہت کم رقم ہے۔حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی حالیہ موت کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جمعرات کو کہا، جو فلسطینی اپنے ہتھیار ڈال کر اسیروں کو واپس لے آئے وہ زندہ رہے گا۔بعد کے دنوں میں اسرائیلی فوج کے غزہ میں گرائے گئے اشتہارات میں بھی اس بات کی ضمانت دی گئی، جو بھی اپنے ہتھیار ڈال دے اور یرغمالیوں کو واپس کر دے، وہ (غزہ سے) امن سے نکل سکے گا۔ اسرائیلی فوج جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک یرغمالیوں کے بارے میں معلومات طلب کرنے کے لیے ایسے ہزاروں اشتہارات ہوائی جہاز سے گراتی رہی ہے۔تل ابیب یونیورسٹی کے موشے دایان سنٹر کے فلسطینی امور کے ماہر مائیکل ملشٹین نے اے ایف پی کو بتایا کہ لیکن ان مطالبات میں کامیابی کے امکانات بہت کم رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ایک، دو یا تین معاملات ہو سکتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس پیشکش کو قبول کرنے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں تیار ہوں۔شمالی غزہ کے رہائشی محمد النجار جو اسرائیلی فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے جنوبی شہر خان یونس فرار ہو گئے تھے، نے اے ایف پی کو بتایا، اسرائیلی فوج کی طرف سے ایسی پیشکشیں ناکام ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا، بطورِ عوام ہم (اسرائیلی فوج کی) شائع یا تقسیم کردہ کسی بھی چیز پر توجہ نہیں دیتے۔ انہوں نے مزید کہا، کچھ لوگ ایندھن کی قلت والے ساحلی علاقے میں آگ لگانے کے لیے اشتہارات کا استعمال کرتے ہیں۔33 سالہ نجار نے اس یقین کا اظہار کیا کہ حماس بدلے میں کسی چیز کے بغیر یرغمالیوں کو رہا کرنے پر راضی نہیں ہو گی اور انہوں نے قیدیوں کی رہائی کی ضمانت کے لیے مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی معاہدے کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا۔ گذشتہ سال نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران 105 یرغمالی رہا ہوئے تھے جن میں سے 80 اسرائیلیوں کو 240 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا گیا تھا۔ایک نئی جنگ بندی تک پہنچنے کی تمام کوششیں اس کے بعد سے ناکام ہو گئی ہیں اور فریقین ایک دوسرے پر مذاکرات روکنے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande