بہار اسمبلی انتخاب : اچھے نظم و نسق کا ماڈل ایک بار پھر کرے گا کمال، سب کی ہے اس پر نظر
پٹنہ، 9 نومبر (ہ س)۔ بہار کی سیاست میں ایک بار پھر ’’سشاسن بابو‘‘ کے نام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جیت کا داو اس بار ان کے ’’اچھے نظم و نسق‘‘ اور وسیع فلاحی منصوبوں پر ٹکا ہوا ہے۔ پولنگ کے پہلے مرحلے میں ریکارڈ 65.08 فیصد ووٹ
وزیر اعلیٰ نتیش کمار (فائل فوٹو)


پٹنہ، 9 نومبر (ہ س)۔ بہار کی سیاست میں ایک بار پھر ’’سشاسن بابو‘‘ کے نام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جیت کا داو اس بار ان کے ’’اچھے نظم و نسق‘‘ اور وسیع فلاحی منصوبوں پر ٹکا ہوا ہے۔ پولنگ کے پہلے مرحلے میں ریکارڈ 65.08 فیصد ووٹنگ نے انتخابی منظر نامے کو ایک نئی جہت فراہم کی ہے۔ اور یہی ریکارڈ ووٹنگ، خصوصاً خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت، نتیش کے ’’منصوبہ پر مبنی‘‘ پیغام کو مزید تقویت دے سکتی ہے۔ ووٹنگ میں خواتین کی زیادہ شراکت اور ترقیاتی اسکیموں کی گونج سے این ڈی اے خیمے کا جوش و خروش بڑھ گیا ہے۔ اب سب کی نظریں اس پر مرکوز ہیں کہ آیا نتیش کا یہ ’’سشاسن منتر‘‘ ایک بار پھر بہار کی سیاسی بساط پلٹ دے گا یا نہیں۔

انتخابات میں ابھرنے والی سب سے بڑی کہانی خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت ہے۔ پولنگ رپورٹس اور تجزیوں کے مطابق، خواتین کی تعداد میں اضافہ اُن منصوبوں کے اثرات کو ظاہر کر رہا ہے جن کا فائدہ براہِ راست خواتین کو پہنچتا ہے، جیسے خود روزگار، پنشن، خواتین کے لیے خصوصی بھتے اور جیویکا دیدی اسکیم۔ سیاسی حکمت عملی بنانے والوں کا کہنا ہے کہ اگر خواتین کی ترجیح نظم و نسق اور فلاحی منصوبوں کی طرف مائل ہے، تو یہ نتیش کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ وہیں، حزب اختلاف کا استدلال ہے کہ ریکارڈ ووٹنگ تبدیلی کی خواہش بھی ظاہر کرتی ہے، اس لیے حتمی تصویر نشستوں کی گنتی کے بعد ہی واضح ہوگی۔

اگرچہ ’’سشاسن‘‘ کا داو مضبوط ہے، لیکن حزبِ اختلاف نے بھی انتخابی حملوں کی رفتار تیز کر دی ہے — بدعنوانی، گروہ بندی اور کچھ ضلعوں میں سلامتی سے متعلق واقعات کو اٹھا کر۔ پہلے مرحلے میں کچھ مقامات پر کشیدگی اور تنازعے کے واقعات بھی درج کیے گئے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انتخاب صرف منصوبوں کا مقابلہ نہیں بلکہ زمینی سطح پر پارٹیوں کی تنظیمی لڑائی بھی ہے۔ عوام کے فیصلے پر مقامی واقعات اور امیدواروں کی ساکھ کا بھی اثر پڑے گا۔

جب فلاحی منصوبوں کے فوائد گھر گھر تک پہنچتے ہیں، جیسے پنشن، روزگار اور خواتین کے لیے بھتے، تو اس کا اثر براہِ راست ووٹر پر دکھائی دیتا ہے۔ ایسے فوائد خصوصاً دیہی اور متوسط طبقے کے علاقوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی لو کمار مشرا نے کہا کہ پہلے مرحلے کی ریکارڈ ووٹنگ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ووٹر بے پرواہ نہیں ہے۔ کچھ علاقوں میں عوام نے موجودہ نظام کو سراہنے کی خواہش ظاہر کی ہے، جبکہ کچھ مقامات پر تبدیلی کی مانگ بھی نمایاں ہے۔ یہی تذبذب انتخابی غیر یقینی کو بڑھا رہا ہے۔ ووٹنگ میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شراکت نے مقامی فلاحی ایجنڈوں کو اہمیت بخشی ہے، جو نتیش حکومت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

ہندوستھان سماچار

---------------

ہندوستان سماچار / انظر حسن


 rajesh pande