استنبول میں پاکستان-افغانستان بات چیت ختم، اختلافات دور نہ ہو سکے
استنبول میں پاکستان-افغانستان بات چیت ختم، اختلافات دور نہ ہو سکے استنبول/اسلام آباد/کابل، 8 نومبر (ہ س)۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعہ کی دیر رات کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت ختم ہو گئی ہے اور اگلا دور کب شروع ہوگا، ا
استنبول میں پاکستان-افغانستان بات چیت ختم، اختلافات دور نہ ہو سکے


استنبول میں پاکستان-افغانستان بات چیت ختم، اختلافات دور نہ ہو سکے

استنبول/اسلام آباد/کابل، 8 نومبر (ہ س)۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعہ کی دیر رات کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت ختم ہو گئی ہے اور اگلا دور کب شروع ہوگا، اس کا فی الحال تعین نہیں ہو سکا ہے۔ مذاکرات کرنے والے دونوں فریقوں کے درمیان گہرے اختلافات کو دور کرنے میں ناکام رہے۔ پاکستان-افغانستان بات چیت کا تیسرا دور جمعرات کو ترکیہ کے استنبول میں شروع ہوا تھا۔ دونوں فریقوں نے بند دروازوں کے پیچھے بات چیت کی اور مذاکرات کرنے والوں نے دونوں جانب کو امن کے لیے کافی سمجھایا، لیکن کوئی مفاہمت ممکن نہ ہو سکی۔ پاکستان کا وفد وطن واپس روانہ ہو گیا ہے۔

پاکستان کے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، وزیر دفاع آصف نے جیو نیوز کے پروگرام میں کہا، ’’فی الحال، جیسا کہ ہم بات کر رہے ہیں، بات چیت ختم ہو چکی ہے۔‘‘ اس سے قبل حکام اور ذرائع نے بتایا تھا کہ مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے رک گئے ہیں۔ ایک سینئر سیکورٹی ذرائع نے صحافیوں کو بتایا، ’’استنبول میں مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔‘‘ پاکستان-افغانستان بات چیت کا تیسرا دور جمعرات کو استنبول میں شروع ہوا اور اسے دو دن تک جاری رکھنے کا منصوبہ تھا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ افغان طالبان کے وفد نے تحریری معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور صرف زبانی معاہدے پر اصرار کیا۔ آصف نے کہا کہ استنبول سے خالی ہاتھ واپس آنا افسوسناک ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی فی الحال نافذ ہے اور اگر افغانستان نے اس کی خلاف ورزی کی تو پاکستان مناسب جواب دے گا۔

وزیر دفاع نے دوہرایا کہ پاکستان کی بنیادی شرط یہ ہے کہ افغان زمین سے حملے بند ہوں۔ تیسرے دور کی بات چیت میں پاکستان کے وفد کی قیادت انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے کی اور وفد میں سینئر فوجی، خفیہ اور وزارت خارجہ کے اہلکار شامل تھے۔ افغان طالبان وفد کی قیادت جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس (جی ڈی آئی) کے سربراہ عبد الحق واثق نے کی۔ ان کے ساتھ سہیل شاہین، انس حقانی اور نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ نجیب موجود تھے۔

اکتوبر کے آغاز میں سرحد پر جھڑپوں کے بعد بات چیت کا آغاز کیا گیا تھا۔ پہلے اور دوسرے دور کی بات چیت دوحہ میں ہوئی۔ استنبول میں بات چیت کا مقصد نگرانی کے نظام کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینا تھا۔ استنبول سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پاکستانی وفد ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو گیا۔ جمعہ کو دونوں وفود کے درمیان کوئی براہِ راست ملاقات نہیں ہوئی، جبکہ جمعرات کو دونوں فریقوں نے قطر اور ترکیہ کے ثالثوں کی موجودگی میں آمنے سامنے ملاقات کی تھی۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندریابی نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ ہمارے وفد نے اپنا موقف تفصیل اور شواہد کے ساتھ پیش کیا۔ اس دوران افغان مذاکرات کاروں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پیش کردہ تجاویز پاکستان کے لیے منطقی اور آسانی سے قبول کرنے کے قابل ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد کی مانگوں کو غیر حقیقت پسندانہ اور جارحانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ مزید پیچیدگیاں پیدا کرنے کا بہانہ بن سکتی ہیں۔

افغانستان کے طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق، بات چیت کے پہلے دن دونوں فریقوں نے ترکیہ اور قطر کے ثالثوں کے ساتھ اپنے اپنے مطالبات پیش کیے۔ ذرائع کے مطابق، پاکستان نے تیسری دور کی بات چیت میں ایک بار پھر ایسے مطالبات اٹھائے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں۔

پاکستان کے مبینہ مطالبات میں سے ایک ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کے ارکان کو پاکستان سے افغانستان منتقل کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے جواب میں، افغانستان کی اسلامی امارت نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اپنی زمین اور فضائی حدود کو دیگر ممالک یا افغانستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال نہ کرے۔ سیاسی تجزیہ کار عزیز ماریز نے کہا کہ یہ بیانات متضاد ہیں کیونکہ ٹی ٹی پی دراصل پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔

ہندوستھان سماچار

---------------

ہندوستان سماچار / انظر حسن


 rajesh pande