
وزیر اعظم نریندر مودی نے قومی گیت ‘وندے ماترم’ کے 150 سال مکمل ہونے پر ایک سال تک جاری رہنے والی یادگاری تقریب کا افتتاح کیانئی دہلی،07نومبر(ہ س)۔وزیر اعظم نریندر مودی نے آج نئی دہلی میں قومی گیت ‘وندے ماترم’ کے 150 سال مکمل ہونے کے ایک سال تک جاری رہنے والی یادگاری تقریب کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ ‘وندے ماترم’ محض کچھ الفاظ نہیں بلکہ یہ ایک منتر، ایک توانائی، ایک خواب اور ایک پختہ عزم ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ‘ وندے ماترم‘ ماں بھارتی کے تئیں عقیدت اور روحانی جذبہ کو مجسم کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس کے الفاظ ہمیں ہماری تاریخ سے جوڑتا ہے، ہمارے حال کو اعتماد سے بھرتا ہے اور ہمارے مستقبل کو یہ یقین کرنے کی ہمت پر ابھارتا ہے کہ کوئی بھی عزم اور کوئی ہدف ہماری دسترس سے باہر نہیں۔‘وندے ماترم’ کے اجتماعی گانے کو اظہار کی حدوں سے بالاتر ایک شاندار تجربہ قرار دیتے ہوئے جناب مودی نے نوٹ کیا کہ بہت سی آوازوں کے درمیان ایک واحد تال، ایک متحد لہجہ، ایک مشترکہ سنسنی اور ایک ہموار بہاوابھرا۔ انہوں نے ہم آہنگی کی گونج اور لہروں کے بارے میں بات کی جو دل کو توانائی کے ساتھ ہلا دیتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 7 نومبر ایک تاریخی دن ہے کیونکہ ملک وندے ماترم کا 150 سال مکمل کر رہا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ یہ مقدس موقع ہمارے شہریوں کو نئی تحریک اور تازہ توانائی فراہم کرے گا۔ تاریخ کے اوراق میں اس دن کو نشان زد کرنے کے لیے‘ وندے ماترم’ کے لیے وقف ایک خصوصی یادگاری سکہ اور ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ ہندوستان کے تمام بہادروں اور روشن خیالوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جنہوں نے ماں بھارتی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں، جناب مودی نے تمام حاضرین کو مبارکباد پیش کی اور وندے ماترم کے 150 سال مکمل ہونے پر ہر شہری کو اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ہر گیت اور ہر نظم میں ایک بنیادی جذبات اور مرکزی پیغام ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے سوال کیا — وندے ماترم کا خلاصہ کیا ہے؟ انہوں نے تصدیق کی کہ اس کا خلاصہ بھارت — ماں بھارتی — ہندوستان کی ابدیت خیال ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس خیال نے انسانی تہذیب کے آغاز سے ہی اپنی تشکیل شروع کی، ہر دور کو ایک باب کے طور پر پڑھا، مختلف قوموں کے عروج، مختلف طاقتوں کا ظہور، نئی تہذیبوں کا ارتقا، ان کا عدم سے عظمت تک کا سفر اور بالآخر ان کا گم ہو جانا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان نے تاریخ کی تشکیل اور تخلیق کا مشاہدہ کیا، دنیا کا بدلتا ہوا جغرافیہ۔ اس لامحدود انسانی سفر سے ہندوستان نے سیکھا، نئے نتائج اخذ کیے اور ان کی بنیاد پر اپنی تہذیب ، اقدار اور نظریات کو تشکیل دیتے ہوئے، ایک الگ ثقافتی شناخت قائم کی۔ جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان طاقت اور اخلاقیات کے درمیان توازن کو سمجھتا ہے اور اس طرح ماضی کے زخموں کے باوجود ایک صاف ستھرے ملک کے طور پر ابھرا ہے - خالص سونے کی طرح – لازوال۔ جو ماضی کی زخموں کی طرح زند و جاوید ہے۔
اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ ہندوستان کا تصور اور اس کے پیچھے فلسفیانہ قوت عالمی طاقتوں کے عروج و زوال سے مختلف ہے، جس کی جڑیں آزاد وجود کے ایک الگ احساس میں ہیں، جناب مودی نے اظہار خیال کیا کہ جب اس شعور کا تحریری اور تال کی شکل میں اظہار کیا گیا تو اس نے ‘وندے ماترم’ جیسی تخلیق کو جنم دیا۔ اسی لیے نوآبادیاتی دور میں ‘وندے ماترم’ اس عزم کا اعلان بن گیا کہ ہندوستان آزاد ہوگا، ماں بھارتی کے ہاتھوں سے غلامی کی زنجیریں کٹ جائیں گی، اور اس کے بچے اپنی قسمت کے خود معمار بنیں۔
گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کے ان الفاظ کو یاد کرتے ہوئے کہ بنکم چندر کا آنند مٹھ محض ایک ناول نہیں ہے - یہ ایک آزاد ہندوستان کا خواب ہے۔ وزیر اعظم نے آنند مٹھ میں وندے ماترم کی گہری اہمیت پر زور دیا، اور یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ بنکم بابو کی ترکیب میں ہر سطر، ہر لفظ اور ہر جذبات کا گہرا مطلب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ گیت نوآبادیاتی دور میں تحریر کیا گیا تھا لیکن اس کے الفاظ ان صدیوں کی غلامی کے سائے میں بھی کبھی قید نہیں ہوئے۔ یہ محکومی کی یادوں سے آزاد رہا، اور یہی وجہ ہے کہ وندے ماترم ہر دور اور ہر زمانہ میں متعلقہ رہا ہے۔ جناب مودی نے گیت کی پہلی سطر کا حوالہ دیا-‘سجلم سفلم ملیاج شیتلم سشیشیاملم ماترم’- اور اسے فطرت کی خدائی نعمتوں سے مزین مادر وطن کو خراج تحسین کے طور پر تعبیر کیا۔اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ یہ ہزاروں برسوں سے ہندوستان کی شناخت ہے، جناب مودی نے کہا کہ اس کے دریاو¿ں، پہاڑوں، جنگلات، درختوں اور زرخیز مٹی میں ہمیشہ بہت زیادہ پیداوار دینے کی طاقت رہی ہے۔ صدیوں سے دنیا نے ہندوستان کی خوشحالی کی داستانیں سنی ہیں۔ صرف چند صدیاں پہلے ہندوستان کا عالمی جی ڈی پی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ تھا۔ تاہم، انہوں نے نوٹ کیا کہ جب بنکم بابو نے وندے ماترم کی تخلیق کی، ہندوستان اس سنہری دور سے بہت دور چلا گیا تھا۔ غیر ملکی حملوں، لوٹ مار اور استحصالی استعماری پالیسیوں نے ملک کو غربت اور بھوک سے دوچار کر دیا تھا۔ پھر بھی بنکم بابو نے ایک خوشحال ہندوستان کے ویڑن کی دعوت دی۔ ان کے اس یقین سے کہ چاہے کتنے ہی بڑے چیلنج کیوں نہ ہوں، ہندوستان اپنے سنہری دور کو زندہ کر سکتا ہے۔ اور اس طرح، اس نے کلریئن کال دی – ‘ وندے ماترم’۔وزیر اعظم نے کہا کہ نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے ہندوستان کو کمتر اور پسماندہ کے طور پر پیش کرکے اپنی حکمرانی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وندے ماترم کی پہلی ہی سطر نے اس جھوٹے پروپیگنڈے کو طاقتور طریقے سے ختم کردیا۔ لہٰذا، وندے ماترم محض آزادی کا گانا نہیں تھا - اس نے لاکھوں ہندوستانیوں کے سامنے ایک ویڑن بھی پیش کیا کہ ایک آزاد ہندوستان کیا ہوسکتا ہے: ایک سجلم س±فلم بھارت کا خواب۔ مودی نے کہا کہ یہ دن وندے ماترم کے غیر معمولی سفر اور اثرات کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جب بنکم بابو نے 1875 میں بنگ درشن میں وندے ماترم شائع کیا تو کچھ کا خیال تھا کہ یہ صرف ایک گانا تھا۔ لیکن جلد ہی وندے ماترم ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی آواز بن گیا - ہر انقلابی کے لبوں پر ایک نعرہ، ہر ہندوستانی کے جذبات کا اظہار۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کی تحریک کا شاید ہی کوئی ایسا باب ہو جہاں وندے ماترم کسی شکل میں موجود نہ ہو۔ 1896 میں گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور نے کلکتہ کے اجلاس میں وندے ماترم گایا۔ 1905 میں جب بنگال کی تقسیم ہوئی - انگریزوں کا ملک کو تقسیم کرنے کا ایک خطرناک تجربہ - وندے ماترم ان خدوخال کے خلاف چٹان کی طرح کھڑا تھا۔ وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ بنگال کی تقسیم کے خلاف مظاہروں کے دوران- سڑکیں ایک ہی آواز سے گونجتی تھیں – ‘ وندے ماترم’۔اس بات کو یاد کرتے ہوئے کہ جب باریسال اجلاس کے دوران مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں، تب بھی ان کے ہونٹوں پر الفاظ ہی رہے — وندے ماترم۔ جناب مودی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ویر ساورکر جیسے مجاہدین آزادی نے جو بیرون ملک سے کام کر رہے تھے، ایک دوسرے کو وندے ماترم کے ساتھ مبارکباد دی۔ کئی انقلابیوں نے پھانسی کے تختہ پر کھڑے ہوکر بھی وندے ماترم کا نعرہ لگایا۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے بے شمار واقعات، تاریخ میں درج ہیں ، متنوع خطوں اور زبانوں کے حامل ایک وسیع ملک میں، ایسی تحریکیں دیکھی گئیں جہاں ہر آواز میں ایک نعرہ، ایک عزم، ایک گانا گونجتا تھا — وندے ماترم۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کے 1927 کے تبصرے کا حوالہ دیا کہ وندے ماترم ہمارے سامنے ایک غیر منقسم ہندوستان کی تصویر پیش کرتا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ سری اروبندو نے وندے ماترم کو صرف ایک گیت کے طور پر نہیں بلکہ ایک منتر کے طور پر بیان کیا ہے جو اندرونی طاقت کو بیدار کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی ذکر کیا کہ بھیکاجی کاما کے ڈیزائن کردہ جھنڈے کے مرکز میں وندے ماترم کے الفاظ تھے۔اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ جب ہندوستان کا قومی پرچم وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ابتدائی شکلوں سے لے کر موجودہ ترنگے تک تیار ہوا ہے، جناب مودی نے کہا، ایک چیز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے - جب بھی پرچم لہرایا جاتا ہے، وہ الفاظ جو ہر ہندوستانی کے دل سے فطری طور پر نکلتے ہیں وہ ہیں بھارت ماتا کی جئے! اور وندے ماترم! انہوں نے زور دے کر کہا کہ جس طرح ملک قومی گیت وندے ماترم کے 150 سال پورے ہونے کا جشن منارہا ہے، یہ ملک کے عظیم ہیروز کو خراج عقیدت بھی ہے۔ یہ ان لاتعداد شہیدوں کو خراج عقیدت ہے جنہوں نے وندے ماترم کا نعرہ لگاتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو گلے سے لگایا، جنہوں نے وندے ماترم کا نعرہ لگاتے ہوئے کوڑوں کی مار برداشت کئے، جو وندے ماترم کا منتر پڑھتے ہوئے برف کے ٹکڑوں پر ثابت قدم رہے۔وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ آج تمام 140 کروڑ ہندوستانی ہر اس معروف نامعلوم اور گمنام فرد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جس نے وندے ماترم کا بول بالا کرتے ہوئے ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، جن کے نام تاریخ کے صفحات میں کبھی درج نہیں ہوئے۔ویدکسطور کا حوالہ دیتے ہوئے اور اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ یہ سرزمین ہماری ماں ہے، یہ ملک ہماری ماں ہے، اور ہم اس کے بچے ہیں، جناب مودی نے کہا کہ ویدک دور سے، ہندوستان کے لوگوں نے اس ماں کی شکل میں ملک کی پوجا کی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسی ویدک سوچ نے وندے ماترم کے ذریعے جدوجہد آزادی میں نئے شعور کو جنم دیا۔اس بات پر زور دیتے ہو
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan