
غزہ،07نومبر( ہ س)۔مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا ہے کہ حماس کے بعض عہدے داروں نے ا±نھیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر جیرڈ ک±وشنر کو بتایا تھا کہ تنظیم اپنے ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ یہ ملاقات 9 اکتوبر کو جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط سے چند گھنٹے قبل ہوئی تھی۔ وٹکوف کے مطابق واشنگٹن اسرائیل پر دباو¿ ڈال رہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر رفح میں گھیرے میں آئے ہوئے حماس کے جنگجوو¿ں کو محفوظ راستہ فراہم کرے۔امریکی ایلچی نے میامی میں امریکی بزنس فورم سے خطاب کے دوران کہا کہ حماس نے ہمیں براہِ راست بتایا کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر تیار ہے۔ ا±نھوں نے مزید کہا کہ اگر حماس اپنے وعدے پر قائم رہتی ہے تو امریکہ کی جانب سے غزہ کے لیے تیار کردہ ترقیاتی منصوبہ واقعی غیر معمولی ہو گا، جو روزگار کے وسیع مواقع فراہم کرے گا۔
وٹکوف نے واضح کیا کہ امریکہ ایک ایسا پروگرام تشکیل دے رہا ہے جس میں ہتھیار چھوڑنا اور عام معافی دونوں شامل ہوں گے۔ ا±ن کے مطابق حماس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار ایک بین الاقوامی سیکیورٹی فورس کے حوالے کرے گی، جس کی تشکیل آئندہ تین ہفتوں میں ممکن ہے۔وٹکوف نے مزید بتایا کہ واشنگٹن اسرائیل پر دباو¿ ڈال رہا ہے کہ وہ رفح کے زیرِ زمین سرنگوں میں موجود حماس کے 100 سے 200 جنگجوو¿ں کے لیے محفوظ گزر گاہ دے، بشرطِ یہ کہ وہ اپنے ہتھیار جمع کرا دیں۔ وٹکوف کے مطابق یہ اقدام جنگ بندی کے تحت اسرائیلی کنٹرول والے علاقے میں موجود جنگجوو¿ں کے لیے ایک “ماڈل پروگرام” ثابت ہو سکتا ہے، جو مستقبل میں ہتھیار چھوڑنے کے بڑے منصوبے کی بنیاد بنے گا۔امریکی ایلچی کے مطابق اس سلسلے میں ا±ن کی ترک وزیرِ خارجہ ہاقان فیدان اور اسرائیلی وزیرِ ا±مورِ برائے تزویراتی امور رون ڈیرمر سے بات چیت ہوئی ہے۔
ادھر اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے حال ہی میں حماس کے جنگجوو¿ں کو محفوظ راستہ دینے کی تجویز کی مخالفت کی تھی، لیکن ایک مشرقِ وسطیٰ کے سفارت کار نے اخبار ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ اسرائیل نے نجی مذاکرات میں اس آپشن کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا۔گزشتہ ہفتے رفح میں اسرائیلی فوج اور حماس کے مسلح افراد کے درمیان جھڑپوں سے جنگ بندی خطرے میں پڑ گئی تھی۔ اس کے بعد امریکہ نے حماس کے محصور جنگجوو¿ں کو “24 گھنٹے کے لیے محفوظ راستہ” دینے کی تجویز دی تھی تاکہ نئی لڑائی روکی جا سکے۔ ابتدا میں حماس نے اس پیشکش کو رد کر دیا، مگر بعد میں اس میں دل چسپی ظاہر کی۔ تاہم اسرائیلی حکام نے موقف اپنایا کہ وقت کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے دائیں بازو کے وزرا نے بھی حماس کے جنگجوو¿ں کو محفوظ راستہ دینے کی شدید مخالفت کی، جس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan