مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی پر سیمینار اختتام پذیر
تقسیمِ وطن کے خلاف اکابر کا فیصلہ بالکل درست تھا،ان کی تجویز پر عمل ہوتا تو ا?ج حالات بہتر ہوتے: مولانا محمود اسعد مدنی مفتی صاحب عظیم کردار کے حامل تھے :مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی۔ سیمینار میں پچاس سے زائد مقالات پیش ہوئے۔ ملک و بیرون ملک کی کئی
مفتی اعظم مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی ﷺ پر سیمینار اختتام پذیر


تقسیمِ وطن کے خلاف اکابر کا فیصلہ بالکل درست تھا،ان کی تجویز پر عمل ہوتا تو ا?ج حالات بہتر ہوتے: مولانا محمود اسعد مدنی مفتی صاحب عظیم کردار کے حامل تھے :مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی۔ سیمینار میں پچاس سے زائد مقالات پیش ہوئے۔ ملک و بیرون ملک کی کئی اہم شخصیات کی شرکت وخطاب

نئی دہلی،22نومبر(ہ س)۔

مفتی اعظم ہند حضرت مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی پر دو روزہ سیمینار کی اہم اور آخری مجلس آج ماولنکر ہال، کانسٹی ٹیوشن کلب، نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیة علماءہند اور مولانا مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بالترتیب آخری دو نشستوں کی صدارت کی۔ نظامت کے فرائض ناظم عمومی جمعی? علمائ ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی اور مفتی محمد عفان منصور پوری نے انجام دیے۔قبل ازیں، گزشتہ دیر رات دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اپنے بلیغ خطاب میں مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی? کی حیات، اخلاق اور ملی خدمات کے مختلف پہلوو?ں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ مفتی اعظم? کی زندگی دراصل گزشتہ سو سالہ ملکی تاریخ اور اس میں علما کے عظیم کردار کی جھلک ہے۔ ان کی شخصیت میں تواضع، ایثار، خدمتِ خلق اور اساتذہ سے گہرا تعلق نمایاں تھا۔ اکابر کی حیات کے مطالعے سے نہ صرف تاریخ سمجھ میں ا?تی ہے بلکہ عملی زندگی کے لیے رہنمائی بھی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مفتی کفایت اللہ? کے اساتذہ، معاصرین اور تلامذہ سب اپنے وقت کے جلیل القدر علمائ تھے، جس سے ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔

آج کی مجلس میں صدر جمعی? علمائ ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تقسیمِ وطن کے خلاف ہمارے اکابر کامل اتفاق رکھتے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی بات بلا دلیل نہیں کہی؛ ان کے بے شمار دلائل رسائل، تقاریر اور تحریروں کی صورت میں موجود ہیں۔ موجودہ حالات میں بعض نوجوانوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اکابر نے غلط راہ اختیار کی تھی۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ حالات واقعی دشوار ہیں، لیکن اس کے دوسرے حصے سے اتفاق نہیں ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہمارے اکابر کا فیصلہ بالکل درست تھا، البتہ ان کے فیصلے پر پوری طرح عمل نہ ہو سکا۔ اگر ان کی تجویز کو قبول کی جاتی اور مسلمان، علما اور ذمہ دار سب یکجا ہو کر ایک موقف اختیار کر لیتے تو صورتحال یقیناً مختلف ہوتی۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے کہا کہ مفتی صاحب العالِم خبیر بِزَمانِہ کے حقیقی مصداق تھے۔ انہوں نے کہا کہ فتویٰ کے ساتھ تقویٰ ضروری ہے، اور جب ہم مفتی صاحب کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی حیات علم و اتقان کے ساتھ تقویٰ کی صفت سے متصف نظر ا?تی ہے۔مولانا خالد صدیقی صدر جمعی? علمائ نیپال نے کہا کہ مفتی صاحب میدانِ سیاست میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے جتنے فقہ و فتویٰ کے میدان میں۔ موجودہ علما کی قیادت کو ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔

صدر مجلس قائمہ جمعی? علمائ ہند مولانا رحمت اللہ میر کشمیری نے کہا کہ مفتی کفایت اللہ ? کی شخصیت عالمگیر تھی۔وہ صرف موجودہ ہندستان کے نہیں بلکہ غیر منقسم ہندستان کے متفقہ عالم تھے ، سبھی مسالک کے علمائ نے ان کو اپنا صد ر بنایا تھا۔ان کی کتاب تعلیم الاسلام نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔

صدر مجلس مفتی محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعی? علمائ ہند نے کہا کہ مفتی محمد کفایت اللہ ? کے ہم عصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ? ان کو عالم الدین والدنیا کہتے تھے۔اسی طرح حضرت مدنی ? ان کی صلاحیتوں سے کافی متاثر تھے۔ان کے مشورے پر حضرت مدنی ? اپنی رائے بدل دیتے تھے۔ضرورت ہے کہ ہم شخصیت سازی پر کام کریں تاکہ ا?ج کے دور میں بھی مفتی صاحب ? جیسی شخصیت پیدا ہو۔

دارالعلوم ندو? العلمائ کے استاذ مولانا عتیق احمد بستوی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مفتی کفایت اللہ? علمائ کی صف میں ممتاز مقام رکھتے تھے، انھوں نے اپنی محنت سے جمعی? کے وقار و اعتبار میں اضافہ کیا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ اکابر کے افکار کی روشنی میں موجودہ وقت میں رہ نمائی حاصل کی جائے۔جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادا?باد کے شیخ الحدیث مفتی شبیر احمد قاسمی نے مفتی محمد اعظم ?کی کتاب کفایت المفتی پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسی سالہ زندگی میں چھپن سال فتوی نویسی میں صرف کیا۔مفتی سید محمد صالح امین عام مظاہر علوم سہارن پور نے اپنے مقالہ میں علمائ مظاہر سے مفتی اعظم ?کے تعلق پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

نائب امیر الہند و کنوینر سمینار مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری نے کہا کہ مذہبی طور پر انفرادیت پیدا کرکے سیاسی محنت کو ا?گے بڑھانے کی کوششیں پہلے بھی جاری رہی ہیں اور ا?ج بھی جاری ہیں ، ایسے حالات میں مفتی محمد کفایت اللہ کا نظریہ و نکتہ سب سے بہتر راہ عمل ثابت ہو سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور مورخ انل نوریا نے کہا کہ مہا تما گاندھی سے لے کر جواہر لال نہرو تک سبھی مفتی صاحب کے مداح تھے۔کانگریس پارٹی کی طرف سے تیار کردہ پشاور سانحہ کی رپورٹ میں مفتی صاحب کا بڑا کردار تھا ، اسی طرح راول پنڈی میںمنعقد کانگریس ورکنگ کمیٹی کی انھوں نے بہت شاند ار رپورٹ تیار کی تھی۔

معروف مورخ ڈاکٹر سوربھ باجپائی نے کہا کہ مفتی صاحب متحدہ قومیت کے علم بردار تھے۔ انھوں نے مہاتما گاندھی اور مدنی کے ساتھ مل کر ہندو مسلم اتحاد کو مستحکم کیا۔کانگریس لیڈر عمران پرتاپ گڑھی نے کہا کہ سبھاش چندر بوس نے مفتی صاحب کو آزادی ہند کا بہادر رہ نما قرار دیاتھا ، جمعی? علمائ ہند کا نظریہ اور دائرہ انتہائی وسیع رہا ہے۔ اس کے اکابر نے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی مسائل میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے، جمعیة علماءہند نے مظلوموں کی جو خاموش لڑائی رہی ہے وہ انتہائی مبارک بادی کے مستحق ہے۔اپنے صدارتی خطاب میں مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ مفتی صاحب? انتہائی مخلص اور متواضع شخصیت کے حامل تھے۔ آج ہندو مسلم سبھی ان کی عظمتوں کو بیان کررہے ہیں ، یہ ان کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ان کے دور میں فلسطین کی حمایت میں بڑی تحریک چلائی گئی اور انھوں نے ظالم حکومت کی اس سلسلے میں کوئی پروا نہیں کی۔ ان کی کتاب تعلیم الاسلام بچوں کے لیے سب سے بڑا تحفہ ہے۔اخیر میں ناظم عمومی جمعی? علما ئ ہند مولانا محمد حکیم الدین قاسمی نے تمام شرکاءکا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جمعیة علماءہند نے ہنوز پانچ سیمینار کئے ہیں جن میں ا?ٹھ اکابر پر متعدد کتابیں اور مقالے شائع ہوچکے ہیں۔ دل چسپی رکھنے والے افراد الجمعیة بک ڈپو سے را بطہ کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔

ان کے علاوہ جن شخصیات نے اپنے مقالے پیش کیے ان میں مولانا مفتی اختر امام عادل سمستی پور، مولانا عرفات اعجاز قاسمی ، حافظ عبدالحی مفتاحی ، مولاناسید محمد صالح مظاہری، ڈاکٹر قاسم دہلوی حفیدہ حضرت مفتی اعظم?، مولانا ضیائ الدین ندوی قاسمی ، نمائندہ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی، مولانا ڈاکٹر مسعود احمد اعظمی، مولانا مفتی دکاوت حسین قاسمی ، مولانا خورشید انور اعظمی جامعہ عربیہ احیائ العلوم مبارک پور، مولانا ضیائ الحق خیر ابادی کے نام شامل ہیں۔ وقت کی قلت کی بنیاد کئی اہم مقالے پیش نہیں ہوپائے ان میں خاص طور پر مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری، مولانا سالم جامعی وغیرہ کے مقالے شامل ہیں۔مجلس کا ا?غاز قاری محمد فاروق کی تلاوت سے ہوا ، قاری محمد اقرار بجنوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے نعت پیش کی جب کہ دوسری نشست میں نعت مولانا عبدالعلیم نے پیش کی، اس موقع پر دہلی و بیرون دہلی سے ایک ہزار سے زائد علمائ و دانشور حضرات شریک ہوئے۔ حضرت مفتی اعظم کے پوتے مولانا انیس قاسمی مدرسہ امینیہ کشمیری گیٹ نے گزشتہ رات کی دوسری نشست کی صدارت کی، ان کے علاوہ دہلی سے جناب محمد سالم حفیدہ مفتی اعظم،قاری عبد الغفار مہتمم مدرسہ بیت العلوم جعفرآباد ، مولانا محمد قاسم نوری ،مولانا قاری اسجد زیبر مہتمم مدرسہ شمس العلوم اور مولانا جمعیة علماءیوپی کے ذمہ دارن بالخصوص مولانا سید محمد مدنی نائب صدر جمعیةعلماءیوپی اور مولانا حسین احمد مدنی سکریٹری جمعی?علمائ یوپی،مفتی ظفر احمد قاسمی ناظم اعلی جمعیة علمائ وسطی زون بھی شریک تھے۔مجلس حضرت مولانا حبیب باندوی ہتھوڑا باندہ کی دعا ءپر ختم ہوئی۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande