خیابان ادب علی گڑھ کے زیرِ اہتمام ناول ''آتماوں کے سراب'' پر مذاکرہ منعقد
خیابان ادب علی گڑھ کے زیرِ اہتمام ناول ''''آتماوں کے سراب'''' پر مذاکرہ منعقد علی گڑھ، 21 نومبر (ہ س)۔ خیابانِ ادب علی گڑھ کے زیرِ اہتمام آج ناول راجیور پرکاش ساہر کے ناول ''''آتماوں کے سراب'''' پر ایک پروقار مذاکرہ سرسیّد اکیڈمی، اے
''آتماوں کے سراب'' پر مذاکرہ


خیابان ادب علی گڑھ کے زیرِ اہتمام ناول ''آتماوں کے سراب'' پر مذاکرہ منعقد

علی گڑھ، 21 نومبر (ہ س)۔ خیابانِ ادب علی گڑھ کے زیرِ اہتمام آج ناول راجیور پرکاش ساہر کے ناول ''آتماوں کے سراب'' پر ایک پروقار مذاکرہ سرسیّد اکیڈمی، اے ایم یو علی گڑھ میں منعقد کیا گیا۔ اس ادبی نشست میں نامور اساتذہ، دانشوروں اور ادب دوستوں نے شرکت کی۔ مذاکرہ کی صدارت پروفیسرشافع قدوائی نے کی جب کہ مہمانِ خصوصی کے طور پر پروفیسر محمد عاصم صدیقی شریک ہوئے۔ وہیں مہمانِ اعزازی میں پروفیسر طارق چھتاری، پروفیسر غضنفر علی اور پروفیسر صغیر افراہیم جیسی علمی شخصیتوں نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹرمعید رشیدی نے انجام دیئے۔

صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف محقق و ادیب پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ ناول ”آتماوں کے سراب“ محض ایک افسانوی کڑی نہیں بلکہ انسانی نفسیات، روحانی تجربات اور حقیقت و سراب کے باریک رشتے کو بڑی فنکاری سے پیش کرتا ہے۔ ایسی تخلیقات ادب کے میدان میں نئے زاویے فراہم کرتی ہیں۔ مہمانِ خصوصی پروفیسر محمد عاصم صدیقی نے کہا کہ اس ناول میں مصنف نے داستان، جدیدت اور علامت نگاری کو نہایت خوبی سے یکجا کیا ہے۔ موضوع کی ندرت اور اسلوب کی پختگی اسے موجودہ اردو فکشن میں ایک نمایاں اضافہ بناتی ہے۔ مہمانِ اعزازی پروفیسر طارق چھتاری نے کہا کہ روحانیت اور سسپنس کو بُناپ کے ساتھ پیش کرنا ہر مصنف کے بس کی بات نہیں لیکن راجیور پرکاش ساہر نے اس ناول میں قاری کو ابتدا سے آخر تک گرفت میں رکھا ہے، جو اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔

پروفیسر غضنفر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آتماوں کے سراب موجودہ دور کے قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ ناول کی زبان، اس کا فکری پس منظر اور پلاٹ کی تہہ داری اسے ایک قابلِ مطالعہ تخلیق بناتی ہے۔ خیابان ادب علی گڑھ کے بانی معروف فکشن نگار پروفیسر صغیر افراہیم نے آتماؤں کا سراب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسکی سب سے بڑی خصوصیت اس کی روحانی اور نفسیاتی فضا ہے، جو قاری کو ابتدا سے آخر تک ایک جادوئی کشش میں رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مصنف نے انسانی باطن، خوف، امید اور سراب جیسے جذبات کو نہایت باریکی اور فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ناول میں حقیقت اور ماورائی عناصر کا امتزاج اس طور پر پیش کیا گیا ہے کہ کہانی نہ صرف سنجیدہ سوچ پیدا کرتی ہے بلکہ قاری کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ ناول کے مصنف جے پرکاش ساہر نے مذاکرہ میں پیش کئے گئے خیالات پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ قارئین کی محبت ہی اُن کی اصل قوت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ”آتماؤں کا سراب“ پر ہونے والی گفتگو نے اُن کے دل میں نئی اُمنگ پیدا کی اور وہ قاری کے جذبے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ مذاکرہ کی کنوینر اور خیابان ادب کی سیکریٹری ثنافاطمہ نے سبھی مہمانان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ نال”آتماؤں کا سراب“کے کرداروں کی داخلی کشمکش اور ان کے جذباتی سفر کا بیان اس ناول کو ایک مضبوط نفسیاتی ڈرامہ بناتا ہے،وہیں اسلوبِ بیان سے ہر منظر ایک زندہ تجربے کی صورت اختیار کر لیتا ہے،اس موقع پر بڑی اساتذہ اور ریسرچ اسکالرس موجود رہے ِ

ہندوستھان سماچار

---------------

ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ


 rajesh pande