
کھرگون، 20 نومبر (ہ س)۔
مدھیہ پردیش ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کی جاری تازہ ہدایت میں واضح کہا گیا ہے کہ 15 سال کی عمر مکمل کر چکی بسوں کا آپریشن صوبے میں ممنوع ہے۔ اس کے لیے وزارت نے اندور، ریوا، گوالیار، اجمیر، بھوپال، جبل پور اور ساگر کے علاقوں سے چلائی جانے والی 899 پرانی بسوں کی فہرست بھی بھیج کر سخت کارروائی کے ہدایات دی ہیں۔ مگر کھرگون میں صورتحال بالکل برعکس ہے۔ یہاں 15 سال نہیں، بلکہ 20-18 سال پرانی بسیں بھی کھلے عام سڑک پر تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہیں۔ ان بسوں میں سفر کرنا گویا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کھرگون کی زمینی حقیقت حکومت کے احکامات کے بالکل برعکس نظر آ رہی ہے۔
آر ٹی او کے دستاویزات میں ’’فیل‘‘ مگر سڑک پر ’’فل اسپیڈ‘‘۔ جن بسوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ ملنا تو دور، دوبارہ گیراج بھیجنا چاہیے، وہی بسیں روزانہ مسافروں کو لے کر دوڑ رہی ہیں۔ شدید حادثے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد تو دور، کئی بسوں میں خالی لوہے کا ڈبہ تک نہیں ہے، جسے فرسٹ ایڈ باکس کہا جا سکے۔ مسافروں کی زندگی کے لیے سب سے ضروری ایمرجنسی ایگزٹ بھی کئی بسوں میں بند کر دی گئی ہے یا ہے ہی نہیں۔ مسافر حفاظت کے لیے بنائی گئی ڈرائیور یونیفارم سے متعلق ہدایات یہاں صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔ کئی ڈرائیور نہ یونیفارم میں ہیں، نہ شناختی کارڈ کے ساتھ اور نہ ہی عملی تربیت کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔
وزارت کا حکم بالکل واضح ہے کہ وہ بسیں جو 15 سال سے زیادہ پرانی ہیں، وہ چلائی نہیں جائیں گی۔ اگر پائی گئیں تو بس کے مالک پر سخت قانونی کارروائی ہوگی۔ لیکن کھرگون میں نہ تو آر ٹی او کی چیکنگ دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی سختی۔ بس آپریٹر اپنی مرضی سے چل رہے ہیں، اور عام عوام خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہے۔ کیا کسی بڑے حادثے کا انتظار ہے؟ کیا احکامات صرف فائلوں تک محدود رہیں گے؟ کیا کھرگون میں آر ٹی او کی نیند تب ہی کھلے گی جب کوئی افسوسناک واقعہ پیش آ چکا ہوگا؟ دوسری طرف اس پورے معاملے میں ٹریفک تھانہ انچارج رمیش سولنکی کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کھرگون سے احکامات موصول ہونے کے بعد ہی ہم ضروری کارروائی کریں گے۔ فی الحال محکمانہ ہدایات کا انتظار ہے۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / انظر حسن