
نئی دہلی، 20 نومبر (ہ س)۔ دہلی کی پٹیالہ ہاوس کورٹ نے جمعرات کو لال قلعہ دھماکے کے معاملے میں گرفتار چاروں ملزمین کو 10 دن کے لیے قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی حراست میں بھیج دیا ہے۔ این آئی اے نے آج انہیں آج پٹیالہ ہاوس کورٹ میں پیش کیا۔ اب تک این آئی اے نے اس معاملے میں چھ ملزمان کو گرفتار کیا ہے اور سبھی این آئی اےحراست میں پہنچ گئے ہیں۔
این آئی اے نے باقاعدہ طور پر پلوامہ کے ڈاکٹر مزمل شکیل گنائی، جموں و کشمیر سے ڈاکٹر عادل احمد راتھر، لکھنو¿ سے ڈاکٹر شاہین سعید اور جموں و کشمیر سے مفتی عرفان واگے کو گرفتار کر کے پٹیالہ ہاوس کورٹ میں پیش کیا۔ اس سے قبل این آئی اے نے خودکش حملہ آور ڈاکٹر عمر نبی کے ساتھی جسیر بلال وانی عرف دانش کو سری نگر سے گرفتار کیا تھا اور اسے بھی 10 دن کے لیے این آئی اے کیحراست میں بھیجا گیا ہے۔ اس سے قبل 16 نومبر کو گرفتار کیے گئے عامر رشید علی کو بھی 10 دن کے لیے این آئی اے کی حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔
این آئی اے کے مطابق دانش نے ڈرون میں تکنیکی تبدیلیاں کیں اور کار بم دھماکے سے قبل راکٹ تیار کرنے کی کوشش کی۔ این آئی اے کے مطابق دانش نے عمر ان نبی کے ساتھ مل کر پوری سازش کو انجام دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ پولیٹیکل سائنس کے گریجویٹ دانش کو عمر نے خودکشحملہ آور بنانے کے لیے برین واش کیا۔ وہ اکتوبر 2024 میں کولگام کی ایک مسجد میں ڈاکٹر ماڈیول سے ملنے کے لئے تیار ہوا، جہاں سے اسے فرید آباد، ہریانہ میں الفلاح یونیورسٹی میں قیام کے لیے لے جایا گیا۔ دانش کو پہلے جموں و کشمیر پولیس نے حراست میں لیا تھا اور پوچھ گچھ کے دوران اس نے انکشاف کیا تھاکہ ماڈیول کے دیگر ارکان اسے کالعدم جیش محمد کے لیے اوور گراو¿نڈ ورکر (او جی ڈبلیو) بنانا چاہتے تھے، جبکہ عمر کئی مہینوں سے اسے خودکش بمبار بنانے کے لیے برین واش کر رہا تھا۔
این آئی اے کے مطابق، عمر کی کوشش اس سال اپریل میں ناکام ہوگئی جب دانش نے اپنی خراب مالی حالت اور اس حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے انکار کردیا کہ اسلام میں خودکشی کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سے پہلے این آئی اے نے 16 نومبر کو عامر رشید علی کو گرفتار کیا تھا۔ عامر کی گرفتاری لال قلعہ دھماکہ کیس میں این آئی اے کی پہلی گرفتاری تھی۔ عامر رشید علی پر مرکزی ملزم عمر کی گاڑی کے حصول میں مدد کرنے کا الزام ہے۔
لال قلعہ کے قریب 10 نومبر کو ایک آئی -10 کار میں دھماکہ ہوا۔ یہ کار عامر رشید علی کے نام پر تھی۔ اس دھماکے میں 13 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوگئے تھے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد