
ڈھاکہ، 18 نومبر (ہ س)۔ بنگلہ دیش انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل-1 کی جانب سے پیر کو معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کو گزشتہ سال کے طلبہ بغاوت پر سخت کارروائی کرتے ہوئے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں موت کی سزا سنائے جانے کے بعد ملک میں بدامنی پھیل گئی۔ ڈھاکہ میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا ہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے کئی جگہ فوج تعینات کرنا پڑی ہے۔
ڈھاکہ ٹریبیون اخبار کی دیر رات کی رپورٹ کے مطابق، دارالحکومت ڈھاکہ کے دھان منڈی 32 میں شیخ حسینہ کے مرحوم والد شیخ مجیب الرحمٰن کے تاریخی گھر میں مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی کوشش کی۔ پولیس کے منع کرنے پر تشدد پھوٹ پڑا۔ فیصلہ آنے کے بعد ڈھاکہ کالج کے درجنوں طالب علم دو بلڈوزر لے کر پہنچے اور لاوڈ اسپیکر پر اعلان کیا کہ وہ بنگ بندھو کے گھر کے باقی ماندہ حصوں کو زمین دوز کر دیں گے۔ اس کے بعد فوری طور پر فوج بھیجی گئی۔ سیکورٹی فورسز نے اردگرد کے تمام راستے سیل کر دیے۔
رپورٹ کے مطابق، بیریکیڈز کو توڑنے پر آمادہ ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑی۔ آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے۔ ایک مقامی پولیس افسر نے کہا کہ بنگ بندھو کے گھر کے آس پاس کسی کو بھی بھٹکنے نہیں دیا گیا۔ یاد رہے کہ اس گھر کو گزشتہ سال حسینہ کے معزول ہونے پر ہجوم نے جزوی طور پر جلا دیا تھا۔ پیر کی شام یہاں تقریباً 300 مظاہرین دوبارہ جمع ہو گئے اور ٹائر جلانے لگے۔ سیکورٹی فورسز کو انہیں بھگانے میں خاصی مشقت کرنی پڑی۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے احاطے میں قائم ٹربیونل کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں جشن اور تشدد دونوں کا دور دیکھا گیا۔ دارالحکومت اور دیگر شہروں کے بعض حصوں میں، چھٹ پٹ آگ زنی اور بم دھماکوں نے لوگوں کو دہلا دیا۔ تشدد کے دوران درجنوں گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ ملک میں فیصلے سے پہلے کے دنوں میں تقریباً 50 بسوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا۔ درجنوں مقامات پر بم دھماکے ہوئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے احاطے میں بڑی اسکرین پر فیصلے کی براہِ راست نشریات دیکھ رہے طلبہ و طالبات نے مٹھائی بانٹ کر جشن منایا۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / انظر حسن