اتر پردیش مدرسہ بورڈ میں تقرری گھوٹالے کا معاملہ انسانی حقوق کمیشن تک پہنچا، تحقیاقات کا مطالبہ
۔ مدرسہ بورڈ کے رجسٹرار آر پی سنگھ پر اپنے ہی رشتہ داروں کو ملازمت دلوانے کا الزام
رجسٹرار آر پی سنگھ نے اپنے ہی رشتہ داروں کو مدرسوں میں ملازمت دلوا کر


لکھنؤ، 16 نومبر (ہ س)۔ اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن کونسل کے اندر مبینہ تقرری گھوٹالہ اب قومی انسانی حقوق کمیشن تک پہنچ گیا ہے۔ بارہ بنکی کے سماجی کارکن طلحہ انصاری نے کمیشن کو ایک تفصیلی خط بھیجا ہے، جس میں رجسٹرار آر پی سنگھ کے دور میں تقرریوں، تبادلوں اور مالیاتی منظوریوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنے خط میں، انصاری نے الزام لگایا ہے کہ وزیر اعلیٰ دفترکی جانب سے اپریل اور مئی 2025 کے درمیان تقرریوں پر پابندی کے باوجود، مدرسہ بورڈ نے کل 40 تقرریوں کو مالی منظوری دی۔ ان میں سے 23 تقرریاں پابندی کی مدت کے دوران اور 17 اس سے پہلے کی گئیں۔ مزید برآں چھ تقرریوں کی منظوری کے بعد خفیہ طور پر احکامات واپس لے لیے گئے۔

انصاری کا دعویٰ ہے کہ رجسٹرار آر پی سنگھ نے اپنے ہی رشتہ داروں کو مدرسوں میں ملازمت دلوا کر اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا۔ الزامات کے مطابق ان کے رشتہ دار مانویندر بہادر سنگھ کے لیے مدرسہ جامعہ عربیہ امداد العلوم بارہ بنکی میں تقرری کی گئی تھی۔ یشونت سنگھ مدرسہ عالیہ مصباح العلوم، سبزی منڈی، پریاگ راج؛ اور ان کی بھانجی، کاجل سنگھ، مدرسہ چشمے حیات، رہٹی (جون پور) میں — اور منظوری کے احکامات پر سنگھ نے بطور رجسٹرار دستخط کیے تھے۔

خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ مدرسہ کونسل کے رجسٹرار نے تقرری کا عمل پچھلی تاریخ مکمل کیا، جعلی اخباری اشتہارات شائع کیے، ڈاک کی رسیدیں جمع کرائیں، اور ای میل ریکارڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔ یہ پورا واقعہ نہ صرف حکومت کی زیرو ٹالرنس پالیسی کا مذاق اڑاتا ہے بلکہ مدرسہ کے تعلیمی نظام کی ساکھ کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔

طلحہ انصاری نے انسانی حقوق کمیشن سے درخواست کی ہے کہ وہ اس پورے معاملے کا نوٹس لے اور چیف سکریٹری، اترپردیش کو نوٹس جاری کرکے آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور بروقت تحقیقات کو یقینی بنائے تاکہ قصورواروں کے خلاف سخت محکمانہ اور قانونی کارروائی کی جاسکے۔

ہندوستھان سماچار

---------------

ہندوستان سماچار / عبدالواحد


 rajesh pande