۔34 دن بعد قبر سے لاش نکالی گئی، متنازعہ زمین پر ہائی کورٹ کی سخت کارروائی
پرولیا، 15 نومبر (ہ س)۔ مغربی بنگال کے پرولیا-1 بلاک کے چکدا علاقے میں تقریباً 34 دن پہلے دفن کی گئی ایک خاتون کی لاش کو کولکاتہ ہائی کورٹ کے حکم پر نکال کر دوسری جگہ دفنایا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ جس زمین پر لاش کو دفن کیا گیا، وہ کافی عرصے سے متنازعہ
Body exhumed after 34 days—High Court strict action


پرولیا، 15 نومبر (ہ س)۔ مغربی بنگال کے پرولیا-1 بلاک کے چکدا علاقے میں تقریباً 34 دن پہلے دفن کی گئی ایک خاتون کی لاش کو کولکاتہ ہائی کورٹ کے حکم پر نکال کر دوسری جگہ دفنایا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ جس زمین پر لاش کو دفن کیا گیا، وہ کافی عرصے سے متنازعہ تھی۔

چکدا علاقے میںایک آشرم کے قریب زمین کو لے کر آشرم انتظامیہ اور مقامی باشندوں کے درمیان برسوں سے تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین تقریباً 200 سال پرانا قبرستان ہے جو مسلسل استعمال میں ہے۔ تاہم آشرم کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ان کی نجی ملکیت ہے اور گاو¿ں والے اسےصرف استعمال کرتے رہے ہیں۔

اسی دوران 12 اکتوبر کو سمیران انصاری نامی خاتون کی موت ہو گئی۔ متوفی خاتون کے اہل خانہ اور مقامی مسلمانوں نے اسے متنازعہ زمین پر دفن کر دیا۔ آشرم کے اہلکاروں نے پولیس میں شکایت درج کرائی اور معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔

ہفتہ کو کلکتہ ہائی کورٹ کی ہدایات کے بعد حکام اور پولیس کی موجودگی میں خاتون کی لاش کو باہر نکالا گیا۔ بعد میں، اسے ایک لاش اٹھانے والی گاڑی میں لے جایا گیا اور دوسری جگہ پر دوبارہ دفن کیا گیا۔ ایڈوکیٹ شوبھاجیت سرکار نے وضاحت کی کہ اسی زمین کے بارے میں اس سے قبل بھی عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا، جس میں اس زمین کو آشرم کی ملکیت تصور کیا گیا تھا۔

ادھرمتوفی کے بیٹے رحمان انصاری نے دعویٰ کیا کہ یہ زمین دو صدیوں سے قبرستان کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”دو سال پہلے اسی مقام پر تدفین ہوئی تھی۔ لیکن اس بار، آشرم نے اعتراض کیا اور اب ہائی کورٹ کے حکم پر لاش کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔“

پرولیا مسجد کمیٹی کے سکریٹری واحد انصاری نے بھی کہا کہ یہ زمین انہیں کسی شیلا دیکشت نامیفرد نے عطیہ کی تھی، لیکن دستاویزات کی کمی کی وجہ سے تنازعہ کھڑا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ زمین مسلمانوں نے 200 سال سے قبرستان کے طور پر استعمال کی ہے، اب ہم عدالت میں بھی اپنا دعویٰ پیش کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ یہ مقدمہ جیت جائیں گے۔“

آشرم کے منیجر راجندر پرساد چٹوپادھیائے نے الزام لگایا کہ انہوں نے شروع سے ہی پولیس اور انتظامیہ کو اس معاملے کی اطلاع دی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ اگر بروقت ایکشن لیا جاتا تو حالات اتنے سنگین نہ ہوتے اور ہائی کورٹ جانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

ہندوستھا ن سماچار

ہندوستان سماچار / محمد شہزاد


 rajesh pande