سٹیزن سوسائٹی، علیگڑھ کے زیرِ اہتمام بین المذاہب مکالمہ اہمیت و معنویت پرمذاکرہ منعقد
علی گڑھ، 6 اکتوبر (ہ س)۔ سٹیزن سوسائٹی علی گڑھ کے زیرِ اہتمام گاندھی جینتی تقریبات کے تحت ''بین المذاہب مکالمہ اہمیت و معنویت'' موضوع پر ایک مذاکرہ اے ایم یو اولڈ بوائز لاج کے کانفرنس ہال میں منعقد ہواجس میں مختلف مذاہب، افکار اور علمی حلقوں سے وابستہ شخصیات نے شرکت کی۔ پروگرام کی صدارت پروفیسر عبدالعلیم سابق صدر، شعبہ ہندی اے ایم یو نے کی۔
مہمانِ خصوصی آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے سربراہ امام محمد عمیر الیاسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کے وقت میں مکالمہ صرف ضرورت نہیں بلکہ فرض بن چکا ہے۔ ہمیں گروکل اور مدارس کے طلبہ کے درمیان مکالمہ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ مختلف طبقوں کے نوجوان ایک دوسرے کے نظریات کو سمجھ سکیں اور باہمی احترام کا ماحول قائم ہو۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی جی اور سر سید احمد خان، دونوں نے اپنے اپنے دور میں اتحادِ انسانیت کا پیغام دیا، ہمیں ان کے افکار سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔
مہمان ذی وقار آچاریہ پربھاکر کرشن موہنی شرن نے کہا کہ تمام مذاہب کا جوہر ایک ہی ہے اور وہ ہے انسانیت۔ اگر ہم مذہبی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کریں تو ہر مذہب محبت، امن اور بھائی چارے کی تلقین کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین المذاہب مکالمہ کسی بحث یا مناظرہ کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو دلوں کو قریب لاتا ہے اور انسانوں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔
سکھ مذہبی رہنما جتھہ دار سردار بھوپندر سنگھ نے کہا کہ سکھ دھرم کی بنیاد ہی خدمتِ خلق اور انسان دوستی پر ہے، گرو نانک دیو جی نے ہمیشہ کہا کہ انسانوں کو مذہب کے خول سے باہر نکل کر ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج دنیا میں نفرت کی دیواریں کھڑی ہو رہی ہیں، ان کو گرانے کا واحد طریقہ مکالمہ ہے، جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔
عیسائی مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے مسلم یونیورسٹی کے استاد جانی فاسٹر نے کہا کہ ہمارا معاشرہ تبھی پُرامن ہو سکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کو سننا سیکھیں۔ مکالمہ صرف گفتگو نہیں بلکہ یہ دلوں کے درمیان ایک تعلق قائم کرنے کا عمل ہے۔ کنوینر پروگرام ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے کہا کہ آج کے پُر آشوب دور میں بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے ماننے والوں کے درمیان افہام و تفہیم، احترام اور برداشت کے جذبات کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے پروگرام نہ صرف نظریاتی سطح پر بلکہ عملی میدان میں بھی ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سٹیزن سوسائٹی، علی گڑھ کا مقصد ہمیشہ رہا ہے کہ وہ امن، بھائی چارہ، اور سماجی انصاف کے فروغ کے لیے فکری مکالمے کے دروازے کھلے رکھے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ پروگرام شرکاء کے دل و دماغ میں مثبت سوچ پیدا کرے گا اور باہمی رواداری کو مضبوط بنانے میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے سوسائٹی کے صدر محمد احمد شیون نے کہا کہ سوسائٹی کا مقصد سماج میں رواداری، امن اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ آج کے دور میں جب مذہب کے نام پر تفریق اور بدگمانی پھیلائی جا رہی ہے، ایسے میں مکالمہ ہی وہ راستہ ہے جو دلوں کو جوڑ سکتا ہے۔ دیگر مقررین میں ماہر سرسید ڈاکٹر راحت ابرارنے سر سید احمد خان کے نظرئیہ اتحادِ بین المذاہب کو تفصیل سے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ سر سید نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ مذہبی اختلاف کو نفرت کا ذریعہ نہیں بلکہ تفہیم کا راستہ اپانان چاہیے۔ سر سید کی تعلیمی تحریک دراصل ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی کی بنیاد تھی۔
صدر شعبہ فلسفہ ڈاکٹر عامر ریاض نے گاندھی جی کے نظریات کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ ''مہاتما گاندھی نے سچائی اور عدمِ تشدد کے فلسفے کے ذریعے ہمیں بتایا کہ مذہبی ہم آہنگی ہی پائیدار امن کی ضمانت ہے۔ آج کے وقت میں جب دنیا نفرت کی سیاست سے دوچار ہے، گاندھی جی کی تعلیمات پہلے سے زیادہ اہم ہو گئی ہیں۔ شعبہ ہندی کے معروف استاد پروفیسر شنبھو ناتھ نے زبانوں کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ زبانیں دلوں کو جوڑنے کا سب سے مضبوط ذریعہ ہیں۔ اردو اور ہندی دونوں ایسی زبانیں ہیں جو صدیوں سے تہذیبی یکجہتی کا استعارہ رہی ہیں۔ اگر ہم زبان کی محبت کو عام کریں تو مکالمہ خود بخود پروان چڑھتا ہے۔
شعبہ تاریخ کے استاد پروفیسر پرویز نذیر نے تاریخی تناظر میں موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ''برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے صوفیاء، سنتوں اور علماء نے ہمیشہ مذہبی رواداری کو فروغ دیا۔ آج بھی ہمیں اسی روایت کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ سماج میں امن اور بھائی چارہ قائم رہے۔
صدرِ جلسہ پروفیسر عبدالعلیم نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ بین المذاہب مکالمہ محض مذہبی بات چیت نہیں بلکہ یہ انسانی تہذیب کی بقا کا ذریعہ ہے۔ اگر دنیا میں امن و سکون چاہیے تو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا یہ امتیاز ہے کہ یہاں ہمیشہ فکری اور تہذیبی مکالمے کو فروغ دیا گیا ہے۔ سٹیزن سوسائٹی کے جوائنٹ سیکریٹری محمد کامران نے تمام مہمانانِ گرامی، سامعین اور معاونین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سوسائٹی کا مقصد ایسے فکری و اصلاحی اجتماعات کے ذریعے محبت، علم اور رواداری کے چراغ روشن کرنا ہے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے انجام دیئے۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں شہر اور یونیورسٹی کے معززین نے شرکت کی۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ