لاہور، 21 اکتوبر (ہ س)۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان اپنی مشترکہ سرحد پر عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک ”اہم“ معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے الجزیرہ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا، ”عسکریت پسندی نے پاکستان اور افغانستان ،دونوں کے سرحدی علاقوں کو انتہائی طور پر متاثر کیا ہے۔ دونوں ممالک نے اب امن اور بہتر تعلقات کی امید کے ساتھ اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔“
پاکستان کے وزیر دفاع کے مطابق دونوں فریق کے درمیان معاہدہ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہوا۔ خواجہ آصف نے اس معاہدے کی ثالثی میں اہم کردار ادا کرنے پر قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی، ترک صدر رجب طیب ایردوان اور ترکیہ کے سفیر ابراہیم قالن کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان سامنے آیا ہے، جس میں گزشتہ ہفتے عسکریت پسندی سے منسلک براہ راست سرحد پار جھڑپیں بھی شامل ہیں۔ دونوں ممالک نے تسلیم کیا کہ دو طرفہ تعلقات کو کشیدہ کرنے والا ایک بڑا مسئلہ عسکریت پسندی ہے۔
آصف نے کہا، ”افغان وزیر دفاع نے بھی تسلیم کیا ہے کہ عسکریت پسندی ہمارے تعلقات میں تناو کی بنیادی وجہ ہے۔ اب ہمارا مقصد اس اور دیگر بقایا مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک موثر طریقہ کار قائم کرنا ہے۔“
انہوں نے کہا کہ معاہدے کی 'تکنیکی' تفصیلات کو حتمی شکل دینے کے لیے اگلے ہفتے استنبول میں ایک اور میٹنگ منعقد کی جائے گی، جس میں قطر اور ترکیہ کے نمائندے ’ضامن‘ کے طور پر موجود ہوں گے۔
علاقائی تجارت اور پناہ گزینوں کے خدشات کے مستقبل پر تبصرہ کرتے ہوئے، وزیر نے کہا، ”تعلقات معمول پر آنے کے بعد، افغانستان ،پاکستانی بندرگاہوں کا استعمال دوبارہ شروع کر سکے گا اور تجارتی اور ٹرانزٹ تعلقات بحال ہو سکیںگے۔ درست دستاویزات کے حامل افغان مہاجرین کو پاکستان میں رہنے کی اجازت ہو گی، لیکن غیر دستاویزی افراد کی ملک بدری کا عمل نہیں رکے گا۔“
تاہم آصف نے تسلیم کیا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ معاہدے سے تمام سنگین مسائل حل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا،”وقت بتائے گا کہ دونوں فریق کتنے خلوص سے معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہیں لیکن جغرافیائی حقیقت برقرار ہے۔ ہم پڑوسی ہیں اور ہمیں پرامن طور پر ایک ساتھ رہنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔“
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد