ڈھاکہ، 16 اکتوبر (ہ س)۔ بنگلہ دیش میں جولائی چارٹر پر قومی ریفرنڈم کرانے کے وقت کو لے کر سیاسی اختلافِ رائے کے سبب عبوری حکومت مخمصے میں ہے۔ اشارے مل رہے ہیں کہ چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس جلد ہی فیصلہ کن مداخلت کر سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے فروری میں ہونے والے آئندہ قومی انتخابات کے دن ہی ریفرنڈم کرانے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) جیسی پارٹیاں ریفرنڈم انتخابات سے پہلے کرانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جماعت اور این سی پی کا استدلال ہے کہ چارٹر پر عوام کی رائے ووٹنگ سے پہلے معلوم کی جانی چاہیے۔
ڈھاکا ٹریبیون اخبار کی رپورٹ کے مطابق عبوری حکومت کل (جمعہ) جولائی کے قومی چارٹر پر دستخط کرنے والی ہے۔ اسے کیسے نافذ کیا جائے، اس پر سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافِ رائے برقرار ہے۔ ان اختلافات کو ختم کرنے اور دستخط سے پہلے غیر یقینی صورتِ حال کو دور کرنے کی کوشش میں، اتفاقِ رائے کمیشن کے صدر ڈاکٹر یونس نے بدھ کے روز اہم سیاسی جماعتوں اور اتحادوں کے رہنماوں سے بات چیت کی۔ بات چیت کے بعد بائیں بازو کے اتحاد نے حل نہیں ہونے والے معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ چارٹر پر دستخط نہیں کرے گا۔
این سی پی کے رہنما اختر حسین نے کہا کہ جولائی چارٹر پر دستخط کرنے کے پارٹی کے فیصلے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عبوری حکومت کے محکمے بھی ریفرنڈم کی ٹائم لائن کو لے کر منقسم ہیں۔
جولائی چارٹر پر دستخط کی تقریب کل قومی پارلیمنٹ کے ساوتھ پلازا میں طے ہے۔ اس میں کم از کم 30 سیاسی جماعتوں کی شمولیت کی توقع ہے۔ ریفرنڈم کی بنیادی تجویز قومی اتفاقِ رائے کمیشن کی ہے۔ اب کمیشن عبوری حکومت کو ممکنہ تاریخوں کی تجویز دیتے ہوئے ایک باضابطہ خط بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔
کمیشن کے رکن پروفیسر ڈاکٹر بدیع العالم مجومدار نے تصدیق کی ہے کہ ابھی تک مدتِ زمانی طے نہیں ہو سکی ہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’ہم نے ریفرنڈم کب ہوگا، اس پر کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔‘‘ انتخابات سے پہلے ریفرنڈم کرانے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے سیاسی جماعتوں کو عوام کی شمولیت پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔
اس معاملے پر بی این پی کی قائم مقام صدر کی حیثیت سے طارق رحمان کی صدارت میں قائمہ کمیٹی نے پیر کی رات اجلاس کیا۔ پارٹی نے اپنے موقف کی توثیق کی کہ ریفرنڈم قومی انتخابات کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔ سکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر اور قائمہ کمیٹی کے رکن صلاح الدین احمد سمیت بی این پی کے رہنماوں نے جلد ریفرنڈم کرانے کے خیال کو انتخابات میں تاخیر کی ایک چال قرار دے کر مسترد کر دیا۔
فخرال نے انتباہ دیا کہ اگر حکومت طے شدہ شرائط سے پیچھے ہٹتی ہے تو بی این پی ریفرنڈم اور انتخابات، دونوں کا بائیکاٹ کر سکتی ہے۔ آئین اصلاحاتی کمیشن کے ایک رکن نے اشارہ دیا کہ ایک مذہب پر مبنی پارٹی انتخاب میں تاخیر کرکے حکمت عملی کا فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ جماعت کے سکریٹری جنرل پروفیسر میاں غلام پرور نے ٹکراو کے بجائے بات چیت کی اپیل کرتے ہوئے مصالحت کی بات کہی ہے۔ اُنہوں نے عام اتفاقِ رائے میں رکاوٹ ڈالنے والے ایک سیاسی رہنما کے تکبر پر بھی تنقید کی۔
بی این پی اور جمہوری محاذ کے رہنماوں نے کہا کہ ڈاکٹر یونس اس معاملے پر کافی حد تک خاموش رہے ہیں۔ حالانکہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے دورے سے واپسی کے بعد وہ بظاہر کافی مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ بی این پی کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا، ’’اگر ڈاکٹر یونس ریفرنڈم پر جلدبازی میں سرکاری گزٹ جاری کر دیتے ہیں تو سیاسی جماعتوں کے پاس چال بازی کرنے کی بہت کم گنجائش رہ جائے گی۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ ’’اگر وہ تعاون کرنے سے انکار کرتے ہیں تو اُنہیں مزید سختی سے کام کرنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔‘‘
گن سنگھتی آندولن کے رہنما جنید ساقی نے اس معاملے پر عام اتفاقِ رائے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ جاتیہ ناگورک اوئیکیا کے محمود الرحمٰن منّا نے کہا کہ اُن کی پارٹی کو ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی باضابطہ تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’پھر بھی ہم نے بی این پی کے ساتھ اپنے مؤقف پر اتفاق قائم کر لیا ہے۔‘‘
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / انظر حسن