بہار اسمبلی انتخابات:بی جے پی کی راہ پر بہار میں این ڈی اے کے اتحادی جماعت ، 183 امیدواروں میں ایک بھی مسلم چہرہ نہیں
پٹنہ، 16 اکتوبر (ہ س)۔بہار اسمبلی انتخابات کے لیے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے اتحادی پارٹیوں نے اب تک 182 امیدواروں کی فہرست جاری کی ہے۔ ان میں ایک بھی مسلمان شامل نہیںہے۔ اب تک اعلان کردہ امیدواروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ این ڈی اے کے حلق
بہار اسمبلی انتخابات:بی جے پی کی راہ پر بہار میں این ڈی اے کے اتحادی جماعت ، 183 امیدواروں میں ایک بھی مسلم چہرہ نہیں


پٹنہ، 16 اکتوبر (ہ س)۔بہار اسمبلی انتخابات کے لیے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے اتحادی پارٹیوں نے اب تک 182 امیدواروں کی فہرست جاری کی ہے۔ ان میں ایک بھی مسلمان شامل نہیںہے۔ اب تک اعلان کردہ امیدواروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ این ڈی اے کے حلقے بھی بی جے پی کی راہ پر چل رہی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے کوٹے سے تمام 101 امیدواروں کی فہرست جاری کر دی ہے۔ بی جے پی نے اپنی پہلی فہرست میں 71 امیدواروں کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد بدھ کے روزبی جے پی نے 12 امیدواروں کی دوسری فہرست جاری کی اور پھر بدھ کی دیر رات باقی 18 امیدواروں کا اعلان کیا۔ اسی طرح جے ڈی یو نے 57 امیدواروں کی فہرست جاری کی ہے، لیکن ایک بھی مسلم امیدوار شامل نہیں ہے۔ایل جے پی (آر) کی 15،ہم کی 06اور اوپیندر کشواہا کی قیادت والی آر ایل ایم 04سیٹوں پر اپنے امیدواروں کے نام کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سےایک بھی سیٹ پر مسلم امیدوار کو توجہ نہیں دی گئی ہے۔

بی جے پی نے اپنے امیدواروں کی فہرست میں راجپوت، بھومیہار، برہمن اور ویشیا برادریوں پر اپنا سیاسی زور دیا ہے۔ زیادہ تر حلقوں میں ان ذاتوں کے امیدواروں کا انتخاب کیا گیا ہے، جب کہ یادو برادری کے کئی لیڈر اس بار اپنے ٹکٹ سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ بہار اسمبلی کے اسپیکر نند کشور یادو کو بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔حالانکہ اس کی تلافی سابق مرکزی وزیر رام کرپال یادو کو دانا پور سے ٹکٹ دے کر کی گئی۔

بی جے پی کی فہرست سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی نے کھلے عام اعلیٰ ذاتوں کو ان علاقوں میں ٹکٹ دیا ہے جہاں وہ سماجی اور اقتصادی طور پر بااثر ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کو یقین ہے کہ نتیش کمار اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں اعلیٰ ذات کے امیدوار انتہائی پسماندہ طبقات کی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کمیونٹی ریاست کے ووٹوں کا تقریباً 36 فیصد حصہ رکھتی ہے اور اسے اکثر خاموش ووٹر کہا جاتا ہے۔ اگرچہ مگدھ کے علاقے میں چندراونشی برادری سیاسی طور پر آواز رکھتی ہے اور اس نے ان کی فعالیت سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن ان کا اثر او بی سی زمرہ کے اندر سرکردہ ذاتوں کے مقابلے نہیں ہے۔

جے ڈی یو کی فہرست نسبتاً مخلوط ہے، لیکن دونوں پارٹیوں میں یادو امیدواروں کے لیے محدود مواقع ہیں۔ ابھی تک جے ڈی یو کی فہرست میں ایک بھی مسلم لیڈر کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ منڈل کمیشن کے بانی بی پی منڈؒ کے پوتے کا بھی ٹکٹ کاٹ دیا گیا ہے۔ انتہائی پسماندہ طبقہ کےووٹوں کے سہارے مضبوط امیدوار اتارنے حکمت عملی نتیش کمار کی رہی ہے۔ جسے بی جے پی نے سال 2017 میں اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں پہلی بار اپنایا اور پھر یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ فارمولہ 2022 میں اپنایا۔ جب دونوں جماعتوں کی مکمل فہرستیں جاری ہوں گی، تو یہ واضح ہو جائے گا کہ این ڈی اے اس وقت انتخابی امیدواروں کو کس سمت میں لے جانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

انتہائی پسماندہ طبقہ اتر پردیش اور بہار دونوں میں انتخابی جیت کا ایک اہم ستون رہے ہیں۔ یہ طبقہ 2005 کے انتخابات سے نتیش کمار کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ اس طبقے سے سینکڑوں ذاتیں تعلق رکھتی ہیں، لیکن کرپوری ٹھاکر کی موت کے بعد اس طبقے سے کوئی ریاستی سطح کا لیڈر سامنے نہیں آیا۔ لالو پرساد یادو نے بھی 1990 کی دہائی میں اس طبقے کے بڑے لیڈر کی ترقی کو روکا اور نتیش کمار نے بھی کسی کو آگے بڑھنے نہیںدیا۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Afzal Hassan


 rajesh pande