مولانا سلطان احمد اصلاحی حیات اور علمی و فکری جہات کے موضوع پر مرتب کتاب کا اجراء
علی گڑھ, 12 اکتوبر (ہ س)ادارہ علوم القرآن علی گڑھ میں انجمن طلبۂ قدیم مدرسۃ الاصلاح شاخ علیگڑھ کے زیر اہتمام مولانا سلطان احمد اصلاحی حیات اور علمی و فکری جہات کے موضوع پر مرتب کتاب کے رسم اجراء کی پر وقار تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب کا آغاز سمیر ا
حیات وخدمات پر کتاب کا اجرا


علی گڑھ, 12 اکتوبر (ہ س)ادارہ علوم القرآن علی گڑھ میں انجمن طلبۂ قدیم مدرسۃ الاصلاح شاخ علیگڑھ کے زیر اہتمام مولانا سلطان احمد اصلاحی حیات اور علمی و فکری جہات کے موضوع پر مرتب کتاب کے رسم اجراء کی پر وقار تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب کا آغاز سمیر احمد اصلاحی کی تلاوت کلامِ پاک سے ہوا، جبکہ نظامت کے فرائض احمد فراز اصلاحی نے انجام دیے۔ ابتداء میں انہوں نے مولانا مرحوم کا مختصر تعارف پیش کر تے ہوئے بتایا کہ مولانا سلطان احمد اصلاحی26؍ فروری1953ءکو ضلع اعظم گڑھ (یوپی) کے گاؤں بھورمئو میں پیدا ہوئے۔ مقامی مدرسے سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعدمعروف دینی درسگاہ مدرسۃ الاصلاح میں داخلہ لیا، جہاں سے1971ء میں فضیلت کی سند حاصل کی۔ انکی طالب علمی کی زندگی علم و فکر کی جستجو میں نہایت سرگرم رہی۔ انکے اساتذہ میں سے ہر ایک نے مولانا کی ذہانت اور طالب علمانہ جستجو کی بنیاد پہ یہ تاثر ظاہر کیا تھا کہ مستقبل میں یہ نوجوان منفرد علمی خدمات انجام دے گا ۔ مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعد مولانا نے اپنا علمی و تحقیقی سفر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علیگڑھ سے شروع کیا، یہ سفر2008ء تک جاری رہا۔مختصر تعارف کے بعد انجمن طلبۂ قدیم مدرسۃ الاصلاح، شاخ علیگڑھ کے صدر ڈاکٹر سادات سہیل اصلاحی کو استقبالیہ کلمات کے لئے مدعو کیا گیا۔ ڈاکٹر عبید اقبال نے خطاب کیا۔انہوں نے مولانا کی علمی و فکری وسعت کے ساتھ انکی سیاسی و سماجی بصیرت پر روشنی ڈ الی اور بتایا کہ وہ معاشرے میں پھیلی برائیوں کے ازالہ کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتے تھے۔اسکے بعد مولانا اشہد جمال ندوی صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ نے کہا کہ مولانا کے انتقال کی خبر سن کر ایسا محسوس ہوا جیسے ایک سرپرست سایہ دار رخصت ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا میں نے اپنا علمی سفر مولانا کی ہی رہنمائی اور نگرانی میں طے کیا ہے ۔وہ میرے مربی و استاد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ مولانا سلطان صاحب اپنی متنوع فکر، مختلف مزاج اور گہرے مطالعے کے سبب ایک وسیع حلقہ میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ اخیر میں انہوں نے انجمن طلبۂ قدیم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ یہ انجمن بڑے علمی و فکری کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پروفیسر ضیاء الدین ملک فلاحی استاد شعبۂ علوم اسلامیہ اے ایم یو علی گڑھ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ یہ کتاب مولانا کی شخصیت اور فکر کا ہمہ گیر احاطہ کرتی ہے۔ مولانا کی علمی و تصنیفی خدمات صرف اسلامیات تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ وہ سیاست، سماجیات اور موجودہ فکری انحرافات جیسے وسیع موضوعات کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ مولانا سلطان اصلاحی کا مطالعہ بہت وسیع اور ہمہ جہت تھا ۔اسکے بعد پروفیسر ابو سفیان اصلاحی نے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ مولانا سلطان اصلاحی صاحب ناقل نہیں تھے بلکہ مجتہدانہ ذوق و بصیرت کے حامل تھے۔ آپ نے وضاحت کی کہ دو کتابیں پڑھ کر تیسری لکھ دینا کوئی کمال نہیں، اصل کمال تو اپنی تحقیق، مطالعہ کی بنیاد پر نئے افکار و خیالات کو تحریری شکل میں پیش کرنا ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ احادیث و آیات کا ایک خاص اسلوب و انداز میں تجزیہ کرنے کا جو ملکہ مولانا کے اندر تھا، وہ ان کی شخصیت کا ایک خاص امتیاز تھا۔پروفیسر اصلاحی کے بعد محمد قمر صاحب چئر مین محکمہ خواتین و اطفال، حکومت اتر پردیش نے خطاب کیاانہوں نے کہاوہ اکثر علمی نکات پر مولانا سے گفتگو کے لیے حاضر ہو تےاور مولانا نہایت اطمینان و سنجیدگی سے ان کے سوالات کے جوابات دیا کرتے تھے۔اس موقع پر ڈاکٹر شارق عقیل نے بھی خطاب کیا ۔پروفیسر مقیم احمد ریٹائر پروفیسر شعبہ فلسفہ اے ایم یو علیگڑھ نے خطاب کیا ۔ آپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں دو اصلاحیوں سے خاص طور پر متاثر ہوا ہوں، ان میں ایک مولانا عبدالحسیب اصلاحی اور دوسرے مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ تھے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ چونکہ مولانا کو جدید علوم سے گہری دل چسپی تھی، اس لیے اکثر ہمارے درمیان مختلف علمی موضوعات مباحثہ ہوا کرتا تھا۔مولانا سلطان احمد اصلاحی کی بعض اہم خصوصیات کی نشان دہی کرتے ہوئے ان سے اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار کیا ۔تقریب کے اختتام پہ محمد اشرف اصلاحی نے کلمات تشکر ادا کیا۔ اس موقع پر متعدد علمی و ادبی شخصیات اور کثیر تعداد میں اصلاحی برادران موجود تھے

---------------

ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ


 rajesh pande