نئی دہلی، 8 ستمبر(ہ س)۔اردو اکادمی دہلی اسکولی سطح سے لے کر یونیورسٹی تک کے طلبا و طالبات کے لیے تعلیمی، ثقافتی اور تربیتی سرگرمیوں کا اہتمام کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کا ہر اردو کا طالب علم اردو اکادمی، دہلی سے منسلک رہتا ہے۔ تعلیمی و ثقافتی مقابلوں کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے اور اب یہ تین دہائیوں سے جاری ہے۔ دہلی کے اردو اسکولوں کے طلبہ و طالبات کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے اندر اردو زبان و ادب اور فن و ثقافت کا ذوق و شوق پیدا کرنے، فروغ دینے اور اس مسابقتی دور میں خود اعتمادی و حوصلہ بڑھانے کے لیے اردو اکادمی ،دہلی ہر سال یہ مقابلے منعقد کرتی ہے۔اس سال 19 مقابلے ہوئے جو 16 روز(20 اگست تا 8 ستمبر) تک جاری رہے۔ ان میں 89 اسکولوں سے تقریباً 1661 طلبا و طالبات نے حصہ لیا۔ ان مقابلوں میں اول، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والوں کو انعامات دیے جائیں گے، جب کہ دیگر بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی انعامات بھی رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام شرکا کو اکادمی کی جانب سے ایک سال تک بچوں کا ماہنامہ امنگ مفت ان کے گھر ارسال کیا جائے گا۔علاوہ ازیں سب سے زیادہ شرکت کرنے والے اسکول کو Best Participipating School (بہترین شرکت کرنے والا اسکول) اور سب سے زیادہ انعامات حاصل کرنے والے اسکول کو Best Performing School (بہترین کارکردگی کا حامل اسکول) کی ٹرافی اور نقد انعام دیا جائے گا۔ان مقابلوں میں تقریر، فی البدیہہ تقریر، بیت بازی، اردو ڈراما، غزل سرائی، کوئز، مضمون نویسی، خطوط نویسی، خوشخطی، پینٹنگ، گروپ سانگ (پرائمری زمرہ) اور بلند خوانی (پرائمری زمرہ) شامل تھے۔ یہ مقابلے دہلی کے پرائمری سے لے کر سینئر سیکنڈری سطح کے اردو اسکولوں کے طلبا و طالبات کے درمیان منعقد ہوئے۔ انعام یافتہ طلبہ اور اسکول کی ٹیموں کو نقد انعامات، مومینٹو اور سرٹیفکیٹ جلسہ? تقسیم انعامات میں دیے جائیں گے، جس کی اطلاع بروقت فراہم کی جائے گی۔آج آخری مقابلہ بلند خوانی برائے پرائمری زمرہ تھا، جس میں 14 اسکولوں کے 28 طلبہ شریک ہوئے۔ اس مقابلے میں جج صاحبان بچوں کو ان کے درجے کے اعتبار سے کوئی سبق یا پیراگراف پڑھنے کو دیتے ہیں۔ تمام شریک طلبہ نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔اس مقابلے کے جج پروفیسر خالد اشرف اور ڈاکٹر قمرالحسن تھے۔ مقابلے کے بعد پروفیسر خالد اشرف نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ بچوں نے وہ متن بھی اچھے انداز سے پڑھا جو انھوں نے سبق میں نہیں پڑھا تھا۔ زبانیں گھروں اور بازاروں میں زندہ رہتی ہیں، صرف نصابی کتابوں سے نہیں۔ سوشل میڈیا زبان کو فروغ بھی دیتا ہے اور نقصان بھی پہنچاتا ہے، اس لیے معیار کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مزید کہا کہ اب بچے اردو کی گنتی بھولتے جا رہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے اور اس سے بچنا ضروری ہے۔ڈاکٹر قمرالحسن نے کہا کہ آج کے مقابلے میں بچوں میں محنت اور اعتماد نمایاں طور پر نظر ا?یا۔ اساتذہ اور والدین کا شکریہ کہ وہ اپنے بچوں پر محنت کر رہے ہیں۔ اردو کا مستقبل انہی کے کاندھوں پر ہے۔جج صاحبان کے فیصلے کے مطابق اول انعام کے لیے اسد ولد محمد شوکت انصاری (سید عابد حسین سینئر سیکنڈری اسکول جامعہ ملیہ اسلامیہ) اور عائشہ ظفیر بنت ظفیرالدین (خدیجة الکبریٰ گرلز پبلک اسکول جوگابائی)، دوسرے انعام کے لیے حمیرہ خان بنت شہزاد خان (رابعہ گرلز پبلک اسکول، گلی قاسم جان) اور اقدس فاطمہ بنت سلمان فیصل (خدیجة الکبریٰ گرلز پبلک اسکول جوگابائی) جب کہ تیسرے انعام کے لیے الائنہ بنت ا?صف (زینت محل سروودیہ کنیا ودیا جعفرا?باد) اور اویس احمد ولد رئیس احمد (مظہرالاسلام سکنڈری اسکول فراشخانہ) کو مستحق قرار دیا گیا۔ ان کے علاوہ حوصلہ افزائی انعام کے لیے افشین بنت محمد اسلام (سید عابد حسین سینئر سیکنڈری اسکول جامعہ ملیہ اسلامیہ) کو مستحق قرار دیا گیا۔یوں یہ تعلیمی و ثقافتی مقابلے کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے۔ ان مقابلوں سے دہلی میں اردو زبان و ادب کی بہتر صورت سامنے ا?ئی۔ اکثر ججوں نے کہا کہ اردو اکادمی دہلی مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ بچوں کو اردو سے جوڑے رکھنے اور مختلف پروگرام منعقد کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais