امریکہ اورمسلم ممالک کا سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی پر امریکی قرارداد کی منظوری کا مطالبہ
نیویارک،15نومبر(ہ س)۔امریکہ سمیت کئی عرب اور مسلمان ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل امریکی قرارداد کو غزہ میں امن منصوبے کی عملداری کے لیے جلد منظور کرے۔ ان مطالبہ کرنے والے ملکوں میں سعودی عرب اور مصر کے علاوہ ترکیہ بھی شامل
امریکہ اورمسلم ممالک کا سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی پر امریکی قرارداد کی منظوری کا مطالبہ


نیویارک،15نومبر(ہ س)۔امریکہ سمیت کئی عرب اور مسلمان ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل امریکی قرارداد کو غزہ میں امن منصوبے کی عملداری کے لیے جلد منظور کرے۔ ان مطالبہ کرنے والے ملکوں میں سعودی عرب اور مصر کے علاوہ ترکیہ بھی شامل ہے۔امریکہ ، قطر ، مصر ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، انڈونیشیا ، پاکستان ، اردن اور ترکیہ نے مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کی ہے۔ یہ قرارداد آج کل سلامتی کونسل میں زیر بحث ہے۔

ان ملکوں کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ قرارداد کو منظور کر نے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ پچھلے ہفتے امریکی حکام کی طرف سے اس سلسلے میں سلامتی کونسل کے 15 ارکان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا گیا تھا۔ تاکہ اس مسودے کو منظور کرا کے غزہ کے جنگ بندی منصوبے کو آگے بڑھایا جائے۔مذکورہ بالا ملکوں کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے ہم اس کوشش کو بہت مخلصانہ سمجھتے ہیں اور غزہ کے استحکام اور امن کے لیے یہ کوشش پائیدار راستے کا تعین کرتی ہے اور یہ امن و استحکام صرف اسرائیل اور حماس کے درمیان نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے چاہتی ہے۔مغربی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے قرارداد کا مسودہ جمعرات کے روز دیکھا جس میں امن کے لیے ایک بورڈ کی تشکیل اور ایک عبوری حکومتی باڈی غزہ کے لیے تجویز کی گئی ہے۔جس کے سربراہ ٹرمپ ہوں گے اور جسے 2027 کے اختتام تک مینڈیٹ حاصل ہوگا۔

یہ قرارداد ممبر ملکوں کو غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس کی تشکیل کا اختیار دے گی اور یہ بین الاقوامی استحکام فورس اسرائیل ، مصر اور نئی تشکیل کردہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدات کے تحفظ اور قیام امن کی کوشش کرے گی۔پچھلی قرارداد کے مسودے کے برعکس اس مسودے میں مستقبل میں ممکنہ فلسطینی ریاست کا بھی ذکر ہے۔ جمعہ کے روز روس نے بھی ایک قرارداد کا مسودہ سلامتی کونسل کے ارکان کو پیش کیا ہے جس میں امن کے قیام کے لیے بورڈ کی تشکیل کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی فوری طور پر بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی کا۔ البتہ روسی مسودے میں جنگ بندی کے انیشی ایٹیو کا خیر مقدم کیا گیا ہے لیکن امریکی صدر ٹرمپ کا ذکر نہیں کیا گیا۔اس مسودے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے کہا گیا ہے کہ وہ ان آپشنز کو عملدرآمد کے لیے ظاہر کریں جو امن منصوبے کا حصہ ہیں۔امریکہ نے جمعرات کے روز جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اسے خطرہ ہے کہ اس کی قرارداد کو منظور نہیں کیا جائے گا۔اقوام متحدہ میں امریکی مشن کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا اب اختلاف کا بیج ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ امریکی قراداد پر عمل کی کوششیں سرگرمی سے جاری رہیں۔اس تفرقے کے بیج کے مضمرات فلسطینیوں کے لیے بڑے گہرے نظر آنے والے اور ناقابل فراموش ہوں گے۔

دوسری جانب سفارتی ذرائع امریکی مسودہ قرارداد پر تین بنیادی اعتراضات کا ذکر کر ہے ہیں کہ اس میں یو این سیکیورٹی کونسل کو مانیٹرنگ کا کوئی کردار نہیں دیا گیا۔ اس طرح یہ سارا اختیار امریکہ اور عبوری حکومت کے پاس چلا جائے گا۔دوسرا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ اس میں فلسطینی اتھارٹی کا کردار بھی تجویز نہیں کیا گیا۔ جبکہ بین الاقوامی استحکام فورس کے مینڈیٹ کے بارے میں بھی چیزیں واضح نہیں کی گئیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande