سیمانچل بنے گا کنگ میکر! بہار انتخاب کی سیاسی جنگ کا نیا محاذ، قومی سیاست پر اثر طے
سیمانچل بنے گا کنگ میکر! بہار انتخاب کی سیاسی جنگ کا نیا محاذ، قومی سیاست پر اثر طے نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے سیمانچل کو این ڈی اے کا قلعہ بنا دیا، اپوزیشن میں کھلبلی مچ گئی۔ سیمانچل میں بی جے پی، آر جے ڈی اور اویسی کی تکڑی آمنے سامنے
علامتی تصویر


سیمانچل بنے گا کنگ میکر! بہار انتخاب کی سیاسی جنگ کا نیا محاذ، قومی سیاست پر اثر طے

نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے سیمانچل کو این ڈی اے کا قلعہ بنا دیا، اپوزیشن میں کھلبلی مچ گئی۔ سیمانچل میں بی جے پی، آر جے ڈی اور اویسی کی تکڑی آمنے سامنے

پٹنہ، 10 نومبر (ہ س)۔

بہار اسمبلی انتخاب کے دوسرے اور آخری مرحلے میں منگل کو 20 اضلاع کی 122 نشستوں پر ووٹنگ ہونی ہے۔ ووٹنگ کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، لیکن اس سے پہلے ریاست کے سیمانچل علاقے پر ایک نظر ڈالنا بھی ضروری ہے، کیونکہ اس خطے کا اثر ریاستی دارالحکومت پٹنہ سے لے کر قومی دارالحکومت دہلی کی حکومت تک محسوس کیا جا رہا ہے۔

دراصل، 24 نشستوں والا یہ علاقہ صرف بہار کی حکومت ہی طے نہیں کرتا بلکہ اس بار قومی سیاست کے مستقبل کی سمت بھی طے کرنے جا رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے یہ داخلی دروازہ، مہاگٹھ بندھن کے لیے ایک ڈھال اور اسدالدین اویسی جیسے رہنماؤں کے لیے مشن توسیع بن چکا ہے۔

سیمانچل میں چار اضلاع شامل ہیں — کشن گنج، کٹیہار، ارریہ اور پورنیہ۔ یہی وہ خطہ ہے جو مغربی بنگال سے متصل ہے اور جہاں مسلم آبادی 40 سے 67 فیصد کے درمیان ہے۔ 2020 کے اسمبلی انتخاب میں یہاں کی 24 نشستوں میں سے 12 راشٹریہ جن تانترک گٹھ بندھن (راجگ)، سات مہاگٹھ بندھن اور پانچ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے حصے میں گئی تھیں۔ اب 2025 کے اس انتخاب میں ہر پارٹی اسے اپنی جیت کی ضمانت سمجھ کر میدان میں اتر چکی ہے۔بی جے پی کے حکمت عملی ساز اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیمانچل میں جڑیں مضبوط کرنا دراصل 2029 کے لوک سبھا انتخاب کے مساوات کو مضبوط کرنا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی خود پورنیہ تک پہنچے اور 40 ہزار کروڑ روپے کی اسکیموں کا سنگِ بنیاد رکھا۔ پیغام بالکل واضح تھا — سیمانچل اب حاشیے پر نہیں رہے گا، ترقی کی سیاست ہی اس کی پہچان بنے گی۔

بی جے پی نے بہار کے تقریباً 12 ہزار کمزور بوتھوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سب سے زیادہ سیمانچل کے علاقے میں ہیں۔ ان بوتھوں پر مسلم آبادی 60 سے 70 فیصد تک ہے، مگر بی جے پی کی توجہ ترقی بمقابلہ ووٹ بینک کی سیاست پر ہے۔ پارٹی کو معلوم ہے کہ کھلے عام مسلم ووٹ نہیں ملیں گے، اس لیے حکمتِ عملی یہ ہے کہ غیر مسلم، پسماندہ طبقے اور خواتین کے ووٹ کو متحد کیا جائے۔

پورنیہ، کٹیہار اور ارریہ میں بی جے پی کے روڈ شو اور وزیر داخلہ امت شاہ کی جارحانہ تقاریر اسی ’’کلسٹر ٹارگٹنگ‘‘ حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی ان اضلاع میں 8 سے 10 نشستیں جیتنے کی امید پر کام کر رہی ہے، جو اسے ریاست میں اکثریت کی لکیر تک پہنچا سکتی ہیں۔

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ سیمانچل کی آواز کو پٹنہ میں سنا جانا چاہیے۔ اویسی کی پارٹی کے پانچ ایم ایل اے 2020 میں منتخب ہوئے تھے اور اب وہ اس علاقے کو مسلم بااختیاری کی تجربہ گاہ بنا رہے ہیں۔ تاہم، ان کے میدان میں اترنے سے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ لالو اور تیجسوی کا روایتی ایم وائی (مسلم-یادو) اتحاد اب دو حصوں میں بٹ رہا ہے۔اے آئی ایم آئی ایم کا عروج مسلم ووٹوں کو بدلتا ہے اور بالواسطہ طور پر این ڈی اے کو فائدہ پہنچتا ہے۔

تیجسوی یادو کے لیے اس بار سب سے بڑی چیلنج اپوزیشن نہیں بلکہ گھر کے اندر سے ہے۔ لالو یادو کے بڑے بیٹے تیج پرتاپ یادو اب الگ پارٹی بنا کر انتخابی میدان میں ہیں۔ تیج پرتاپ نے کہا ہے کہ جو روزگار دے گا اور نقل مکانی روکے گا، وہ اسی کا ساتھ دیں گے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اس بیان نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ کیا یہ بالواسطہ طور پر این ڈی اے کے حق میں فضا بنا رہا ہے؟ بی جے پی اس پر خاموش ہے، لیکن پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخاب کے بعد نئے سیاسی مساوات سامنے آ سکتے ہیں۔

راہل گاندھی نے سیمانچل سے لے کر سہرسا تک اپنی تقریروں میں کہا ہے کہ ہریانہ سے لے کر ہندوستان کے بہار تک بی جے پی نے ووٹ چوری کی، مگر اب بہار کی عوام یہ نہیں مانے گی۔ بی جے پی نے اس پر پلٹ وار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی راہل ہارتے ہیں، تو انہیں ای وی ایم اور چوری یاد آتی ہے۔ عوام ترقی کے نام پر ووٹ دے رہی ہے، ڈرانے کے نام پر نہیں۔ راہل کی جارحانہ زبان جہاں کارکنوں کو توانائی دے رہی ہے، وہیں بی جے پی اسے مایوسی کی سیاست قرار دے کر عوامی رائے پر اثر ڈالنے کی کوشش میں ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بہار کا سیمانچل علاقہ اب صرف ریاست کی نشست نہیں بلکہ 2029 کی قومی حکمتِ عملی کا ایک آزمائشی میدان بن چکا ہے۔ جیسے بنگال میں مذہبی پولرائزیشن کے ماڈل نے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا تھا، ویسے ہی سیمانچل میں بی جے پی ترقی کے ساتھ سلامتی کے بیانیے کو آزما رہی ہے۔ آر جے ڈی اور کانگریس اسے ووٹ بینک کی سیاست قرار دے رہی ہیں، جب کہ این ڈی اے اسے ’’نئے بہار‘‘ کی بنیاد بتا رہا ہے۔ اویسی کی آمد نے مقابلے کو سہ رخی بنا دیا ہے، جس سے پلڑا کسی بھی جانب جھک سکتا ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / انظر حسن


 rajesh pande