واشنگٹن،13اکتوبر(ہ س)۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز سوال کیا کہ کیا برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر ایک نئے بورڈ آف پیس میں شامل ہوں گے جس کا مقصد غزہ کی حکمرانی کی نگرانی کرنا ہے۔ کئی سال قبل عراق جنگ میں بلیئر کے کردار کے حوالے سے ان پر تنقید جاری ہے۔مجھے ہمیشہ سے ٹونی پسند ہیں لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا وہ ہر ایک کے لیے قابلِ قبول انتخاب ہیں، ٹرمپ نے ان مخصوص رہنماوں کا نام لیے بغیر کہا جو بلیئر کے انتخاب پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔گذشتہ ماہ وائٹ ہاوس نے مجوزہ غزہ امن بورڈ میں بلیئر کا نام بطور رکن درج کیا تھا۔ٹرمپ نے اسرائیل کے لیے پرواز کے دوران صدارتی طیارہ ایئر فورس ون میں سوار صحافیوں سے گفتگو کی۔ وہاں وہ پیر کو اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ سے خطاب کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ جنگ بندی اب چوتھے دن میں داخل ہو رہی ہے تو وہ مصر میں عالمی رہنماو¿ں کا اجلاس ہو رہا ہے جس کا مقصد غزہ جنگ کا باضابطہ طور پر خاتمہ کرنا ہے۔ ٹرمپ اس میں شرکت کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔اسرائیلی اپنے باقی ماندہ 20 زندہ قیدیوں کی طے شدہ رہائی کا انتظار کر رہے ہیں جو سات اکتوبر 2023 سے حماس کے زیرِ حراست ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ بورڈ آف پیس تیزی سے کام انجام دے گا لیکن انہوں نے اس بارے میں بے یقینی کا اظہار کیا کہ آیا بلیئر کی اس میں شمولیت پر ہر فرد کی طرف سے پذیرائی ملے گی۔میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ٹونی سب میں مقبول ہوں گے کیونکہ میں یہ نہیں جانتا۔
بلیئر کو بورڈ میں شامل کرنے کے خیال سے فلسطینی سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے علاوہ برطانیہ میں ان کی اپنی لیبر پارٹی کے اراکین کے درمیان عدم اعتماد پیدا ہوا۔ 2003 کے عراق حملے کی حمایت کرنے سے پارٹی میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا تھا۔یاد رہے کہ امریکی قیادت میں اس حملے کے بعد امریکہ اور برطانیہ کے یہ دعوے بالآخر غلط ثابت ہوئے کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan