غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام غالب توسیعی خطبے کا انعقاد
نئی دہلی،04مئی (ہ س)۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام ایوان غالب میں غالب توسیعی خطبے کا انع
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام غالب توسیعی خطبے کا انعقاد


نئی دہلی،04مئی (ہ س)۔

غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام ایوان غالب میں غالب توسیعی خطبے کا انعقاد کیا گیا۔ خطبہ پیش کرتے ہوئے معروف مو¿رخ پروفیسر سید علی ندیم رضاوی نے کہا کہ عہد وسطیٰ نے ہمیں اتنا کچھ دیا ہے کہ اگر ہم پیچھے کی طرف دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ہم جو کچھ ہیں وہ اسی دور کی تربیت کا فیضان ہے۔ ہماری فکر کو وسعت اصل میں اسی دور نے دی۔ مجھے افسوس ہے کہ اس عہد کی زریں روایات شاید اگلی نسل تک نہ پہنچ سکیں کیوں کہ تاریخ کو بہت تیزی سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ توسیعی خطبے کی صدارت شعبہءتاریخ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی صدر پروفیسر فرحت نسرین نے کی۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ میں غالب کی بہت بڑی مداح ہوں اور آج آپ سے روبرو ہونے کا موقع غالب کی وجہ سے ہی ہاتھ آیا ہے۔ یہ سمجھنا کہ ہر عرب سے آنے والا حملہ ور تھا، تاریخ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ہم تجارت کے ساتھ الفاظ کی بھی لین دین کر رہے تھے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ ہر سال غالب توسیعی خطبے کا انعقاد کرتا ہے یہاں ہونے والے لکچرس میں ہماری کوشش ہوتی ہے موضوعات میں کچھ نیا پن ہو اور تکرار کا احساس پیدا نہ ہو۔ آج کا موضوع اور مقرر دونوں بہت اہم ہیں اس میں غور و فکر کے بہت سے گوشے موجود ہیں۔ خطبے کی مہمان خصوصی پروفیسر امیتا پالیوال نے کہا کہ عہد وسطیٰ پر اتنی بات ہو گئی تو ہمیں یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اس عہد میں خواتین کا کیا کردار تھا۔ یوروپین اسکالر نے ایک غلط فہمی کو عام کیا کہ عورتیں صرف بناو¿ سنگار میں مصروف رہتی تھیں انھیں سیاست اور سماجیات میں کوئی د خل نہیں تھا۔ لیکن تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ عورتوں کا ایک فعال کردار تھا وہ عمارات تعمیر کرانے سے لے کر شکار کرتی تھیں۔ اور وہ منصب دار بھی ہوتی تھیں۔ اس خطبے میں علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والے کثیر تعداد میں موجود تھے۔

ہندوستھان سماچار/محمد


 rajesh pande