گیا: چار بچوں کی ماں کو پڑھنے کی ہے خواہش، لیکن اسکول میں نہیں مل رہاہے داخلہ
گیا: چار بچوں کی ماں کو پڑھنے کی ہے خواہش، لیکن اسکول میں نہیں مل رہاہے داخلہ گیا، 30 اپریل (ہ س)۔عل
گیا: چار بچوں کی ماں کو پڑھنے کی ہے خواہش، لیکن اسکول میں نہیں مل رہاہے داخلہ


گیا: چار بچوں کی ماں کو پڑھنے کی ہے خواہش، لیکن اسکول میں نہیں مل رہاہے داخلہ

گیا، 30 اپریل (ہ س)۔علم حاصل کرنا، ہنر سیکھنا اور تجربہ کار بننے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ خواندگی شرح کے اضافے کے لیے تنظیموں، اداروں اور موٹیوشنل اسپیکر کے ذریعے حوصلہ افزائی کے لیے یہی کہا جاتا ہے کہ پڑھنے اور سیکھنے کی کوئی عمر اور حد نہیں ہوتی۔ ان کہاوتوں اور باتوں کو کئی مرد و خواتین نے صحیح ثابت بھی کیا ہے اور اپنی عمر، مالی تنگی اور دیگر معاملوں کی رکاوٹوں کے باوجود مثال پیش کی ہے۔ گیا ضلع کی ایک ایسی ہی خاتون شبینہ خاتون ہے جن کی کم عمری میں شادی ہوگئی اور اس وجہ سے اسکا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔ تاہم شادی کے قریب 15 برسوں بعد پڑھنے کا شوق پھر سے پیدا ہوگیا ہے۔

شبینہ خاتون نویں جماعت سے تعلیمی سلسلے کو شروع کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ تعلیم تب ہی حاصل کر سکیں گی، جب ان کا کسی اسکول میں داخلہ ہو۔ دوسری تعلیم یافتہ خواتین کی طرح ہی گیا ضلع کے چاند تھانہ علاقہ میں واقع ریباڈ گاوں کی رہنے شبینہ خاتون بھی پڑھنا چاہتی ہیں۔ شبینہ خاتون کی عمر قریب 30 برس ہوگئی ہے۔ ان کے چار بچے ہیں جن میں بڑا بیٹا 14 برس کا ہے اور وہ الیکٹریشین کا کام سیکھتا ہے جبکہ اس کے تین بچے چاکند کے ایک نجی اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں، ایک بیٹا نویں جماعت میں ہے اور وہ ہی اپنی ماں کو 9ویں جماعت کے نصاب کے تحت گھر میں پڑھاتا ہے لیکن شبینہ خاتون چاہتی ہیں کہ وہ ریگولر طریقے سے تعلیم حاصل کریں۔

شبینہ نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں اور چار بچوں کی ماں ہے۔ اس نے چا کند کے ہائی اسکول سے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے، تعلیم کا سلسلہ کیوں منقطع ہوا؟ اس سوال کے جواب میں شبینہ نے کہا کہ اسکے والد ایک مسجد میں امام تھے، گھر میں غریبی تھی، والدین نے کم عمر میں شادی کردی۔ پڑھنے کا شوق تو تھا لیکن شادی ہونے کے بعد تعلیم بند ہوگئی اور پھر گھر کے کام کاج اور بچوں کی ذمہ داری کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ ہی ختم ہوگیا، لیکن اب بچے بڑے ہوگئے ہیں اور اُن کو پڑھتے دیکھ کر خود بھی پڑھنے کا شوق ہوگیا ہے۔ خواہش ہے کہ میٹرک پاس کر نرس بنیں یا پھر ٹیوشن پڑھانے کے لئے ٹیچر بنیں، لیکن کسی اسکول میں داخلہ نہیں مل رہا ہے ۔

پڑھنے کا ارادہ کر کے شبینہ خاتون گیا کے کئی اسکولوں میں داخلہ کے لیے رابطہ کیا، لیکن کسی بھی اسکول میں داخلہ نہیں ہوا۔ سبھی اسکولوں سے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ عمر زیادہ ہوگئی ہے جسکی وجہ سے آپکا داخلہ نہیں ہوگا۔ ایسے میں شبینہ خاتون نے این آئی او ایس کے ذریعے سے بھی میٹرک کا امتحان دینا چاہا لیکن اس میں بھی کامیابی نہیں ملی۔ شبینہ خاتون نے بتایا کہ اسکے لیے وہ ضلع اسکول بھی گئی لیکن وہاں سے بھی کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملا جسکی وجہ سے اسے مایوسی ہاتھ لگی ہے۔

شبینہ خاتون کا شوہر دلی میں مزدوری کرتا ہے جبکہ شبینہ خاتون خود چا کند بازار میں واقع ایک ڈاکٹر کی کلینک میں آفس میں یعنی کہ نمبر وغیرہ لگانے کا کام کرتی ہے۔ میاں بیوی ملکر بچوں کو اچھی تعلیم دلانے میں لگے ہیں۔ شبینہ خاتون نے بتایا کہ اسکے شوہر کا پورا تعاون ہے۔ بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت کے لیے خود ہی پڑھنا چاہتی ہے۔ شبینہ خاتون کو افسوس یہ بھی ہے کہ اگر وہ پڑھی لکھی ہوتی تو وہ آج اچھی جگہ پر کام کرکے بچوں کو اور بہتر ڈھنگ سے پڑھاتی۔ کیونکہ ملال یہ بھی ہے کہ بڑا بیٹا بھی زیادہ نہیں پڑھ سکا اور وہ گھر کی غریبی کو دیکھ کر کام سیکھ رہاہے۔ شبینہ کے کل چار بچے ہیں ۔ بڑا بیٹا 14سال کا ہے، سب سے چھوٹا بچہ ایک سال کا جبکہ دو میں ایک کی عمر بارہ برس اور ایک کی عمر سات برس ہے۔ ہر دن بچوں کو پڑھانے کے ساتھ خود بھی پڑھتی ہے۔

دراصل میٹرک کے لئے کم سے کم عمر کی حد 14 سال ہے۔ اس سے کم عمر کے بچے میٹرک کا امتحان نہیں دے سکتے لیکن اس سے اوپر کتنی بھی عمر ہو وہ امتحان بورڈ کا دے سکتا ہے۔ لیکن زیادہ عمر والوں کے لیے ریگولر میں پریشانی ہے۔ بی بی او ایس ای بہار حکومت کا ایک تسلیم شدہ ادارہ ہے جہاں سے تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ بی بی او ایس ای یعنی بہار بورڈ آف اوپن اسکولنگ اینڈ ایگزامینیشن پٹنہ ہے، اس ادارے کو 2011 میں منظوری ملی تھی۔ اس ادارے کے ذریعے دس ویں اور 12ویں جماعت کے لیے تعلیمی سہولیات فراہم کیا جاتا ہے، اوپن اسکول بنیادی طور پر غریب بچوں اور ایسی خواتین کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیا گیا ہے۔ اسلئے ایسے وہ سبھی جو اب پڑھنا چاہتے ہیں وہ بی بی او ایس ای سے میٹرک کر سکتے ہیں۔ اسکا بھی اسٹیٹس ریگولر بورڈ اور اسکی پڑھائی کی طرح ہی ہے۔

ہندوستھان سماچار/ افضل

/شہزاد


 rajesh pande