کولمبیا یونیورسٹی :21 ارکان کانگریس نے غزہ جنگ کے خلاف مظاہروں پر پابندی کا مطالبہ کیا
واشنگٹن،30اپریل(ہ س)۔ امریکہ میں موجودہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک قانون سازوں نے کو
کولمبیا یونیورسٹی


واشنگٹن،30اپریل(ہ س)۔

امریکہ میں موجودہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک قانون سازوں نے کولمبیا یونیورسٹی میں غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف جاری مظاہروں پر سخت غم وغصہ ظاہر کرتے ہوئے انہیں یہود دشمنی قرار دے کر پابندی لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔اس انتہائی غصے کا اظہار کرنے والے 21 امریکی ڈیموکریٹک قانون سازوں نے کولمبیا یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے طلبہ کے مظاہرے روکنے میں ناکامی دکھائی ہے۔امریکی ڈیمو کریٹ ارکان کانگریس نے ایک مشترکہ تحریر کیے گئے خط پر دستخط کرتے ہوئے کہا ہے ' ہم کولبمیا یونیورسٹی میں جاری مظاہروں پر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی نے ایسا کرنے کے وعدوں کے باوجود، ابھی تک اسرائیل اور یہود مخالف کارکنوں کی طرف سے ناجائز طور پر اکٹھے ہونے کو ختم نہیں کیا ہے۔کانگریس کے 21 اراکین کے گروپ نے مشترکہ خط میں لکھا ہے ' فلسطین کی حمایت میں جاری مظاہروں نے حالیہ ہفتوں کے دوران پورے امریکہ کے کیمپسز کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی میں سب سے اعلیٰ پروفائل پر ہونے والے مظاہرے ہیں۔ بہت سے اسرائیلیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مظاہرے یہود دشمنی ہیں۔ تاہم، طلباءنے کہا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سام دشمنی کے لیے مظاہرے نہیں کر رہے ہیں۔لیکن تصویروں میں کالج کے گراو¿نڈز میں مظاہرین کے ساتھ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ اور حماس کے جھنڈے دیکھے گئے ہیں۔ یہ دونوں دونوں امریکہ کے نامزد کردہ دہشت گرد گروپ ہیں اور دونوں میں سے کسی کی حمایت کرنا امریکی قانون کے تحت قابل سزا ہے۔خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ڈیموکریٹس غزہ پر اسرائیلی بمباری اور اس کے نتیجے میں دسیوں ہزار فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کے خلاف بڑے واضح ہیں۔

واضح رہے 21 ڈیمو کریٹ ارکان کانگریس کا یہ خط ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے سامنے نہیں لایا گیا۔اسرائیل ساات اکتوبر کو کیے گئے حماس کے حملے کے جواب میں پچھلے تقریبآ سات ماہ سے غزہ میں ایک جنگی مہم چلا رہا ہے، اس جنگ کے دوران اب تک لگ بھگ 35000 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ییں۔ جن میں سے دو تہائی کے قریب فلسطینی بچے اور عوریں ہیں۔ان جاں بحق ہونے والوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا یے ان کی اکثریت جنگجو نہیں بلکہ عام فلسطینیوں اور شہریوں کی ہے۔ تاہم اسرائیل کہتا ہے کہ اس کی جنگ حماس کے خاتمے کے لیے جاری رہے گی۔21 قانون سازوں نے کہا ہے' احتجاج کے نتیجے میں کولمبیا یونیورسٹی میں کلاسوں میں خلل پیدا ہونے کے علاوہ، یہودی طلبہ خوف زدہ ہو تے ہیں۔ وہ ان مظاہروں کو یہود دشمنی پر مبنی، تقریروں کو نفرت انگیزی والی اور تشدد کی دھمکیوں والی قرار دیتے ہیں۔' اس لیے انہیں روکا جائے۔

یاد رہے غزہ میں 35000 کے قریب جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں میں شامل عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد کی ہلاکت کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے پر یونیورسٹی کی ایک طالبہ خیمانی جیمز کے کیمپس کے اندر داخل ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔یونیورسٹی طالبہ کی بنائی گئی وڈیو میں کہا گیا تھا کہ بچوں اور عورتوں پربمباری کرنے والے ایسے ' صہیونی، آرام سے زندگی گزارنے کے لائق نہیں ہیں، صہیونی زندہ رہنے کے لائق نہیں ہیں۔ کانگریس کے مذکورہ ڈیموکریٹک ارکان نے یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز پر احتجاج ختم کرنے میں پیش رفت نہ کرسکنے پر سخت تنقید کی ہےاور کہا ہے ' مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اب کارروائی کا وقت ہے، عمل کرنا بورڈ آف ٹرسٹیز کی ذمہ داری ہے۔ اگر ٹرسٹیز ایسا کرنے کو تیار نہیں ، تو انہیں مستعفی ہو جانا چاہئے۔

ہندوستھان سماچار/محمد


 rajesh pande