
مگر مسلمان صرف ایک اللہ کی عبادت کرتاہے ، اوراس عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرسکتا :مولانا ارشدمدنینئی دہلی، 9 دسمبر(ہ س)۔آج پارلیامنٹ میں وندے ماترم پر بحث کے پس منظر میں صدر جمعیۃ علمائ ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہمیں کسی کے وندے ماترم پڑھنے اورگانے پر اعتراض نہیں مگر ہم یہ بات ایک بارپھر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتاہے ، اوراپنی اس عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرسکتاانہوں نے آگے کہا کہ وندے ماترم نظم کے مشمولات شرکیہ عقائد وافکار پر مبنی ہیں، بالخصوص اس کے چار اشعار میں واضح طورپر وطن کو برادر وطن کے معبود?‘ در گاما تا’ سے تشبیہ دے کر اس کی عبادت کے لئے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جو کسی بھی مسلمان کے بنیادی عقیدے اور ایمان کے خلاف ہے، ہندوستان کا دستور ہر شہری کو مذہبی آزادی (دفعہ (25) اور اظہار رائے کی آزادی (دفعہ 19) فراہم کرتا ہے۔ ان دفعات کے تحت کسی بھی شہری کو اس کے مذہبی عقیدے اور جذبات کے خلاف کسی نعرے ،گیت یا نظریے کو اپنانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔مولانا مدنی نے یہ بھی کہاکہ سپریم کورٹ کا بھی یہ فیصلہ ہے کہ کسی بھی شہری کو قومی ترانہ یا کوئی ایسا گیت گانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جو اس کے مذہبی عقیدے کے خلاف ہو۔ انہوں نے کہا کہ وطن سے محبت الگ چیز ہے اور اس کی عبادت دوسری چیز۔مسلمانوں کواس ملک سے کتنی محبت ہے اس کے لئے ان کو کسی کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ جنگ آزادی میں مسلمانوں اور جمعی? علمائ ہند کے اکابرین کی بے مثال قربانیاں اور خاص طور پر وطن کی تقسیم کے خلاف جمعیۃ علمائ ہند کی کوششیں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔اورآزادی کے بعد اس ملک کے اتحاد و سلامتی کے لئے ان کی جدوجہد کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ حب الوطنی کا تعلق دلوں کی وفاداری اور عمل سے ہے، نعرے بازی سے نہیں۔ مولانا مدنی نے وندے ماترم کے تناظر میں کہا کہ تاریخی ریکارڈ بالکل واضح ہے کہ 26 اکتوبر 1937 کو رویندرناتھ ٹیگور نے پنڈت جواہر لال نہر و کو ایک خط میں مشورہ دیا تھا کہ وندے ماترم کے صرف ابتدائی دو بندوں کو قومی گیت کے طور پر قبول کیا جائے، کیونکہ بقیہ اشعار توحید پرست مذاہب کے عقائد سے متصادم ہیں۔ یہی بنیاد تھی جس پر کانگریس ورکنگ کمیٹی نے 29 اکتوبر 1937ئ کو فیصلہ کیا کہ صرف دو بندوں کو قومی گیت کے طور پر منظور کیا جائے۔ اس لیے آج ٹیگور کے نام کا غلط استعمال کر کے جبرا اس نظم کو مسلط کرنے یا اس کے مکمل گانے کی بات کرنا نہ صرف تاریخی حقائق کوجھٹلانے کی کوشش ہے بلکہ ملکی وحدت کے تصور کی تو ہین اور گرو جی ٹیگور کی تحقیر بھی ہے۔ یہ بھی قابل افسوس ہے کہ لوگ اس کو تقسیم ہند سے جوڑتے ہیں ، جب کہ را بندر ناتھ ٹیگور کا مشورہ قومی وحدت کے لیے تھا۔ مولانا مدنی نے زور دیا کہ وندے ماترم سے متعلق بحث دراصل مذہبی عقائد کے احترام اور آئینی آزادی کے دائرے میں ہونی چاہیے، نہ کہ سیاسی الزام تراشی کے انداز میں۔ جمعی? علمائ ہند تمام قومی رہنماو¿ں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ایسے حساس مذہبی تاریخی معاملات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ ملک میں باہمی احترام، رواداری اور اتحاد کو فروغ دینے کی اپنی آئینی ذمہ داری پر کار بند رہیں۔“وندے ماترم” بنکم چندر چٹرجی کے ناول “آنند مٹھ” سے ایک اقتباس ہے۔ اس کی کئی سطریں اسلام کے مذہبی اصولوں کے خلاف ہیں، اسی لیے مسلمان اس گانے کو گانے سے گریز کرتے ہیں۔ وندے ماترم گانے کا پورا مطلب ہے ماں، میں تیری پوجا کرتا ہوں۔۔“ ماں، میں تمہاری عبادت کرتا ہوں۔ یہ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ گانا ہندو دیوی ماتا درگا کی تعریف میں گایا گیا ہے، نہ کہ مادر وطن ہندوستان کے لیے۔وندے ماترم درگا کی تعریف میں لکھا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اسلام توحید پر مبنی ایک مذہب ہے، جو ایک ایسے اللہ ،اوم اور ایشور کی عبادت کرتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے،ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے اور ہرچیز پر اس کو قدرت ہے۔ کسی ملک یا ماں کی پوجا کرنا اس توحیدی اصول سے متصادم ہے۔ وندے ماترم گانا ماں کے سامنے جھکنے اور اس کی پوجا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، جب کہ اسلام اللہ کے علاوہ کسی کے آگے سر جھکانے اورکسی کی عبادت کرنے سے منع کرتا ہے۔ہم ایک خدا کے ماننے والے ہیں ہم خدا کے علاوہ کسی کو نہ اپنا معبود مانتے ہیں اور نہ ہی کسی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، اس لیے اس کو ہم کسی حال میں بھی قبول نہیں کر سکتے مر جانا تو قبول ہے لیکن شرک کرنا قبول نہیں ہے۔مریں گے تو اسلام پر ہی جیئے گے تو اسلام ہی پر انشائ اللہ۔مولانا مدنی نے یہ سوال کیا کہ کیا ملک میں ان سب متنازعہ ایشوزکے علاوہ ملک وقوم کے مفادمیں کوئی ایسا ایشواورمسئلہ نہیں ہے جس پر پارلیمنٹ میں بحث کی جاتی ، انہوں نے کہا کہ ملک کی اقتصادی اورمعاشی صورتحال کی جو رپورٹیں سننے میں آرہی ہیں وہ انتہائی خطرناک ہیں اوراگر اس پر فوری توجہ نہ دی گئی توملک ایک بڑے اقتصادی بحران کا شکارہوسکتاہے مگرافسوس اس پر کوئی بحث اس لئے نہیں ہوتی کیونکہ اس طرح کی بحثوں سے ووٹ نہیں ملتااورنہ ہی ملک میں فرقہ ورانہ صف بندی قائم ہوسکتی ہے ، توآج کل الیکشن جیتنے کا آزمودہ نسخہ بن گئی ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais