
نئی دہلی،08دسمبر(ہ س)۔ جماعت اسلامی ہند کے تحت مرکزی تعلیمی بورڈ کی جانب سے منعقدہ دو روزہ ”کل ہند تربیتی و تفہیمی پروگرام برائے معلمین و معلمات و ذمہ دارانِ جزوقتی مکاتب“ آج اختتام پذیر ہوا۔ اس پروگرام میں ملک کی مختلف ریاستوں سے جزوقتی مکاتب کے معلمین، معلمات اور ذمہ داران نے شرکت کی اور مکاتب میں طریق? تدریس سے متعلق تربیت حاصل کی۔اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے اپنے اختتامی خطاب میں کہا:“بچوں کی تعلیم و تربیت ایک حساس عمل ہے۔ اساتذہ نسلِ نو کو مستقبل کے لیے تیار کرتے ہیں، یہ ایک عظیم ذمہ داری اور امانت ہے۔ اس ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کرنے کے لیے استاد کو ہر لمحہ کچھ نیا سیکھتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں اقامتِ دین کی راہ ہموار کرنے کے لیے سب سے آسان راستہ جزوقتی مکاتب کا قیام اور نسلِ نو کی اسلامی تعلیم و تربیت ہے۔ لہٰذا اس اہم خدمت کو معمولی نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنے دینی فریضے کے طور پر انجام دیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ کے ساتھ نرمی، شفقت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کریں اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو ا±بھارنے میں رہنمائی کریں۔“
پروگرام کا آغاز مولانا انعام الحق قاسمی کی تذکیر بالقرآن سے ہوا۔ اس کے بعد مرکزی تعلیمی بورڈ کے ڈائریکٹر سید تنویر احمد نے اپنی افتتاحی گفتگو میں کہا:“آج بچوں کو نیٹ، جے ای ای وغیرہ جیسے کورسز میں داخلے کے لیے تیار کرنے پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کی فکر بھی انتہائی ضروری ہے، اور جزوقتی مکاتب اس ضرورت کو پورا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ معلمین کا کام صرف ایک گھنٹہ پڑھا دینا نہیں بلکہ بچوں کی شخصیت سازی اور انھیں حسنِ اخلاق سے آراستہ کرنا اصل ذمہ داری ہے۔“کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے کہا:“آج ہندوستان میں مسلمان ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ انبیائی مشن سے دوری ہے۔ جزوقتی مکاتب کے ذریعہ نسلِ نو کی تربیت کے لیے اس مشن کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی کے ذریعے ملتِ اسلامیہ کو عزت و وقار مل سکتا ہے۔ لہٰذا تعلیم و تربیت کے ذریعے بچوں میں پیغمبرانہ مشن کو زندہ کیا جائے۔“
مولانا انعام اللہ فلاحی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تیار کردہ نصابی کتب کا مقصد صرف عربی سکھانا نہیں بلکہ طلبہ میں بنیادی دینی شعور پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ طلبہ کو انفرادی کے بجائے اجتماعی طور پر پڑھایا جائے اور مارپیٹ یا کسی بھی قسم کی سزا سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے مختلف ویڈیوز کے ذریعے طریق? تدریس کے اہم نکات واضح کیے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر آفاق ندیم خان نے تعلیم و تربیت میں انعام و سزا کے تصور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ:“چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، اس سے ان میں شوق بڑھتا ہے اور وہ چیزیں زندگی بھر یاد رہتی ہیں۔“
پروفیسر جسیم احمد کے مطابق تعلیم و تربیت میں بچوں کی عمر، نفسیات اور فہم کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔جماعت اسلامی ہند کے نیشنل سکریٹری جناب شبیر عالم خان نے ملک بھر میں جزوقتی مکاتب کی توسیع و استحکام سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر شہر میں کم از کم پچاس سے سو مکاتب قائم ہونے چاہئیں، اور اس سلسلے میں زیادہ منظم کام کی ضرورت ہے۔جماعت کے نیشنل سکریٹری ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے ”والدین اور سرپرستوں کو مکتب سے جوڑنے کے عملی طریقے“ پر رہنمائی فرمائی۔ اسی طرح جناب عتیق الرحمن نے ”بچوں کی شخصیت سازی میں سرگرمیوں کا کردار“ کے عنوان سے انڈور سرگرمیوں اور تدریسی طریقوں سے اساتذہ کو آگاہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اساتذہ مکتب میں بچوں کے ساتھ بچوں جیسا رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کی تربیت کریں۔
اظہارِ خیال کرنے والوں میں مہاراشٹر کے مولانا اختر الاسلام ندوی (جزوقتی مکاتب: نظام اور طریقہ کار)، مولانا حمیدالدین فلاحی (عملی نمونہ تدریس: ناظرہ قرآن و تجوید)، محمد رمضان قاسمی (عملی نمونہ تدریس: اسلامیات)، مفتی حسام الدین امام و خطیب چاند مسجد (مکتب: کامیابی کی شرائط)، اور مولانا شفیق احمد فلاحی (تعلیمی وسائل کی تیاری اور تدریس میں ان کا استعمال) شامل ہیں۔ہر سیشن کے اختتام پر سامعین کو سوالات و جوابات کا موقع بھی دیا گیا۔ پروگرام کے اختتام پر مرکزی تعلیمی بورڈ کی جانب سے تمام اساتذہ کو نئے سال کی ایک ڈائری اور کلینڈر بطورِ تحفہ پیش کیا گیا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais