
غزہ،07دسمبر(ہ س)۔غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت مستقبل میں اس ’انتظامیہ‘ کو اپنے ہتھیار حوالے کرنے کے لیے تیار ہے جو غزہ کو چلانے کے انتظام کی ذمہ داری سنبھالے گی، تاہم ہتھیاروں کی حوالگی کے لیے اسرائیلی قبضے کا خاتمہ ضروری ہے۔انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے ہتھیار قبضے اور جارحیت کے وجود سے منسلک ہیں۔ جب قبضہ ختم ہو جائے گا تو یہ ہتھیار ریاست کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ ان کے دفتر نے واضح کیا کہ ان کی ریاست سے مراد ’آزاد فلسطینی ریاست‘ ہے۔خلیل الحیہ نے مزید کہا کہ ہتھیاروں کا معاملہ ابھی بھی فلسطینی دھڑوں اور ثالثوں کے ساتھ زیر بحث ہے، معاہدہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور ہم بین الاقوامی فورسز کو سرحدی نگرانی اور غزہ میں جنگ بندی کے نفاذ کے لیے قبول کرتے ہیں۔یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب عالمی توجہ غزہ کے معاہدے کے دوسرے مرحلے کی جانب مرکوز ہے جس کی نگرانی امریکہ کر رہا ہے۔ایک مغربی سفارت کار اور ایک عرب حکومتی عہدے دار نے جمعہ کو بتایا تھا کہ توقع ہے کہ سال کے آخر تک غزہ کے انتظام کے لیے ایک بین الاقوامی کونسل کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی۔ان دونوں حکومتی اہلکاروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ امن کونسل کے نام قائم یہ باڈی جس کی سربراہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے میں مشرق وسطیٰ اور مغرب کے تقریباً 12 دیگر رہنما شامل ہوں گے، تاکہ غزہ کا انتظام اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت دو سال کے لیے کیا جا سکے، جس میں توسیع کی گنجائش ہو۔انہوں نے مزید بتایا کہ ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹس کمیٹی بھی قائم کی جائے گی جو جنگ کے بعد غزہ کے روزانہ انتظام کی ذمہ داری سنبھالے گی۔یہ بھی متوقع ہے کہ سنہ 2025 کے آخر میں منصوبے کا اعلان ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاھو کے اجلاس کے دوران کیا جائے گا۔غزہ میں سکیورٹی کے قیام کے لیے متوقع بین الاقوامی فورس میں متعدد ممالک حصہ لیں گے۔ عرب حکومتی اہلکار نے بتایا کہ اب بھی اس بارے میں بات چیت جاری ہے کہ کون سے ممالک حصہ لیں گے، تاہم توقع ہے کہ اس کی تعیناتی سنہ 2026 کے پہلے سہ ماہی میں شروع ہو جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان دوسرے مرحلے پر مذاکرات متوقع ہیں، لیکن یہ خاص طور پر حماس کے ہتھیار اور اسرائیل کی غزہ کے کچھ علاقوں سے واپسی کے حوالے سے مشکل ہوں گے۔ٹرمپ کے امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں تباہ شدہ علاقے کی دوبارہ تعمیر شامل ہے، تاہم فنڈنگ کے ذرائع ابھی حتمی طور پر طے نہیں ہوئے۔گذشتہ جمعہ کو حماس نے غزہ کے انتظام کے لیے ٹکنوکریٹس کمیٹی کے قیام کی منظوری دی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ غزہ کے قبضے پر اصرار نہیں کرے گی۔ قبل ازیں حماس نے واضح کیا تھا کہ ہتھیار کے معاملے پر قومی اور داخلی مکالمے کے فریم ورک میں بات چیت جاری ہے۔کئی عرب ممالک نے گذشتہ دنوں دوسرے مرحلے کی تعطل پر تشویش ظاہر کی اور دونوں طرف سے رفح کے راستے کو دوبارہ کھولنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔اس دوران کئی فلسطینی اسرائیل کی طرف سے فلسطینی ریاست کے قیام سے انکار کے خدشات کا شکار ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ امریکی منصوبے میں اس کی وضاحت واضح طور پر نہیں کی گئی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan