جرمنی کے چانسلر کا دورہ اسرائیل، تل ابیب کے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھنے کا عزم
تل ابیب،07دسمبر(ہ س)۔جرمنی کے چانسلر فریڈریچ میرٹز نے دورہ اسرائیل کے دوران تل ابیب کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے اور اسرائیل کی ہر سطح پر حمایت کا اعلان کیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جرمن چانسلر نے کہا کہ اسرائیل کی حمایت اور ا
جرمنی کے چانسلر کا دورہ اسرائیل، تل ابیب کے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھنے کا عزم


تل ابیب،07دسمبر(ہ س)۔جرمنی کے چانسلر فریڈریچ میرٹز نے دورہ اسرائیل کے دوران تل ابیب کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے اور اسرائیل کی ہر سطح پر حمایت کا اعلان کیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جرمن چانسلر نے کہا کہ اسرائیل کی حمایت اور اس کے ساتھ کھڑا ہونا وفاقی جرمن جمہوریہ کی مستقل پالیسی کا حصہ ہے۔

خیال رہے کہ میرٹز نے منصب سنبھالنے کے بعد اسرائیلی کا پہلا دوہ کیا ہے۔اگرچہ تل ابیب اور برلن کے درمیان تعلقات خوش گوار رہے ہیں تاہم رواں سال اگست میں جرمنی نے غزہ پر اسرائیلی بمباری کے بڑھنے کے جواب میں جرمن ہتھیاروں کی اسرائیل کو برآمدات پر جزوی پابندی عائد کر دی تھی جس پر اسرائیل نے سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ بعد ازاں نومبر میں اسرائیل پر عائد پابندی ہٹا دی تھی۔جرمن چانسلرنے مزید کہاکہ غزہ میں اسرائیلی فوج کے اقدامات نے ہمیں کچھ چیلنجز دیے اور ہم نے ان کا جواب دیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہمیں یہ بھی محسوس ہوا کہ اب تک ہمارے درمیان بنیادی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پاس اپنے دفاع کا حق موجود ہے۔

میرٹز آج اتوار اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو سے ملاقات کریں گے۔ دونوں فریقین کو توقع ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے دوسرے مرحلے کی جانب اقدامات پر بات کریں گے۔ان کا دورہ اسرائیل اور جرمنی کے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے ہے، اگرچہ غزہ کی جنگ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں انتہا پسند آبادکاروں کے تشدد کی وجہ سے دونوں کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔دورہ اسرائیل سے پہلے جرمن چانسلر نے فلسطینی صدر محمود عباس کو ’ضروری اور فوری اصلاحات کرنے کی تلقین کی تاکہ جنگ کے بعد غزہ میں‘مثبت کردار ادا کیا جا سکے۔میرٹز نے محمود عباس سے ٹیلی فون پر گفتگو میں مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں کے خلاف آبادکاروں کے تشدد میں زبردست اضافے کی مذمت کی۔جرمنی کی حکومت کے ترجمان سٹیفن کورنیلیوس نے بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیش کردہ امن منصوبے کے حوالے سے تعاون کو سراہا۔ انہوں نے دو ریاستی حل کے لیے حمایت کا بھی اعادہ کیا۔قابل ذکر ہے کہ اسرائیل اور حماس نے 9 اکتوبر کو مصر، قطر، امریکہ اور ترکیہ کی ثالثی میں ٹرمپ کے پیش کردہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد پر اتفاق کیا تھا جس کے بعد 10 اکتوبر کو جنگ بندی کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔اس دوران اسرائیلی فورسز نے یلو لائن کہلانے والی حد تک پیچھے ہٹتے ہوئے غزہ کے زیادہ تر زیر کنٹرول علاقے پر قبضہ برقرار رکھا ہے۔دوسری جانب حماس نے تمام زندہ اسرائیلی قیدیوں کو واپس کیا اور 28 میں سے 27 لاشیں اسرائیل کو واپس دی گئیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande