
ماسکو،06دسمبر(ہ س)۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹرز کے مطابق جنگی جرائم میں مطلوب روسی صدر اور ان کے ساتھ دیگر پانچ روسی حکام کے وارنٹ گرفتاری اس کے باوجود اپنی جگہ قائم رہیں گے کہ امریکی کوششوں کے نتیجے میں یوکرین جنگ کے سلسلے میں ایک عام معافی کا اعلان بھی کر دیا جاتا ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹرز کی طرف سے یہ بات جمعہ کے روز کہی گئی ہے۔ فوجداری عدالت کے ڈپٹی پراسیکیوٹر سینیگال سے تعلق رکھنے والی میم مینڈیائے نیانگ اور فجی سے تعلق رکھنے والی نزاہت شمیم خانیہ نے یہ بات اپنے بیان میں کہی ہے۔یہ دونوں ڈپٹی پراسیکیوٹرز بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کی جگہ پر تحقیقات و تفتیش کے امور انجام دے رہی ہیں۔ چیف پراسیکیوٹر ان دنوں رخصت پر ہیں۔ ان پراسیکیوٹرز کے بقول بین الاقوامی فوجداری عدالت کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد منظور کیا جانا ضروری ہو گی۔ تب جا کر وارنٹ گرفتاری معطل ہو سکیں گے۔یاد رہے بین الاقوامی فوجداری عدالت نے روس کے صدر ولادی میر پوتین اور دیگر پانچ اعلیٰ روسی حکام کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں وارنٹ گرفتاری یوکرین پر روسی جنگی یلغار کی وجہ سے جاری کر رکھے ہیں۔ یوکرین جنگ فروری 2022 سے جاری ہے۔ جسے ماہ فروری 2026 میں چار سال مکمل ہو جائیں گے۔روسی صدر پوتین اور روس کی چائلڈ رائٹس کمشنر لووا بیلووا پر الزام ہے کہ ان دونوں نے غیر قانونی طور پر سینکڑوں بچوں کو یوکرین سے ڈی پورٹ کیا تھا۔دوسری جانب روس کی طرف سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا جاتا ہے نیز جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی بھی تردید کی جاتی ہے۔روس کے جن دیگر اعلیٰ ذمہ داروں کو جنگی جرائم کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری کا سامنا ہے ان میں روس کے سابق وزیر دفاع سرگئی شائق روسی جرنیل ولیری گراسیموف بھی شامل ییں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث رہے ہیں اور معصوم سویلینز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔اس سلسلے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دو ڈپٹی پراسیکوٹرز کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا امن معاہدہ ہوتا ہے۔ جس کے تحت سلامتی کونسل میں معاملہ جاتا ہے اور سلامتی کونسل بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وارنٹ گرفتاری ختم کر دیے جائیں تو صرف اس صورت میں وارنٹ واپس ہو سکتے ہیں۔ڈپٹی پراسیکیوٹر نزاہت شمیم خان نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی بنیادی دستاویز اور دائرہ کار کا ذکر کرتے ہوئے کہا لیکن جہاں تک بین الاقوامی فوجداری عدالت کا تعلق ہے یہ اپنے طور پر ایسا نہیں کرے گی بلکہ انصاف کی بالادستی کے لیے ہر اقدام اور آخری حد تک جائے گی۔یاد رہے ماہ نومبر کے دوران امریکی تیار کردہ امن منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
یوکرین اور یورپی ملکوں نے اس امریکی امن منصوبے کو روس کے سامنے جھک جانے والی دستاویز کے طور پر شک بھری نگاہ سے دیکھا ہے۔ کیونکہ اس امن معاہدے میں روسی مطالبات تسلیم کیے جانے کے علاوہ جنگ میں ملوث تمام فریقوں کو ہر طرح کے جرائم سے عام معافی بھی مل سکے گی۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیانگ کے مطابق ہم نے سلامتی کونسل کے جس راستے کا ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ہم اپنے قانون کے پابند ہیں، قانون کے سامنے جو ان میں سے کچھ سیاسی انتظامات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔دوسری جانب یوکرین نے بھی عام معافی دینے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ نیدرلینڈز میں یوکرینی سفیر اینڈری کوسٹن، جو اس سے قبل پراسیکیوٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے عام معافی کے خیال کو مکمل مسترد کیا ہے۔خیال رہے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے 125 ملک رکن ہیں۔ جبکہ امریکہ سمیت کئی اہم طاقتیں اس فوجداری عدالت کی رکن ہیں نہ اسے تسلیم کرتی ہیں۔ بلکہ اس پر بالعموم تنقید کرتی اور پابندیاں لگاتی ہیں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan