
بیروت،05نومبر(ہ س)۔لبنانی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سیمون کرم کو مذاکرات کے وفد کا سربراہ منتخب کیے جانے کے بعد حزب اللہ کے اندر شدید ناراضی پائی جاتی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ یہ فیصلہ صدارتی آفس کی جانب سے حزب اللہ سے مشاورت کے بغیر کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق صدر جوزف عون نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سیمون کرم کو لبنان کا نمائندہ منتخب کیا۔ ذرائع نے مزید کہا کہ حزب اللہ صدارتی آفس کے ساتھ کسی محاذ آرائی کی خواہاں نہیں ہے لیکن اسے اس معاملے میں صدارتی فیصلے پر اپنا اثر و رسوخ کھونے کا احساس ہے۔لبنانی صدر نے بدلے میں کہا ہے کہ سیمون کرم کا انتخاب انہوں نے نواف سلام اور پارلیمنٹ کے سپیکر نبیہ بری سے مشاورت کے بعد کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ الناقورہ اجلاس نے آئندہ اجلاسوں کی راہ ہموار کی جو 19 دسمبر کو شروع ہونے والے ہیں۔ لبنانی صدر نے زور دیا کہ جنگ کی زبان کے بجائے مذاکرات کی زبان کو غالب آنا چاہیے۔دوسری جانب لبنانی وزیر اطلاعات نے کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ عالمی برادری سے مذاکرات کو کامیاب بنانے میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر نے زور دیا کہ اسرائیل کو لبنانی سرزمین سے انخلا پر مجبور کرنے سے کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں لبنان کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔لبنان کے الناقورہ علاقے میں بدھ کو اسرائیل اور لبنان کے درمیان کئی دہائیوں کے بعد پہلی براہ راست بات چیت ہوئی۔ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی کمیٹی یا میکنزم کمیٹی کے نام سے جانے والے اجلاس میں لبنان کے سابق سفیر سیمون کرم اور اسرائیلی قومی سلامتی کونسل میں خارجہ پالیسی کے سینئر ڈائریکٹر یوری رسنک سمیت لبنان اور اسرائیل کے دو سویلین نمائندوں نے حصہ لیا۔ امریکی مندوب مورگن اورٹاگس بھی موجود تھیں۔لبنان کے وزیر اعظم نواف سلام نے تین بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کے ساتھ ایک انٹرویو میں تصدیق کی تھی کہ دونوں فریق ابھی تک امن مذاکرات کے مرحلے تک نہیں پہنچے ہیں۔ فرانس پریس کے مطابق انہوں نے زور دیا کہ ان اجلاسوں کا مقصد دشمنی کا خاتمہ، لبنانی سرزمین سے اسرائیلیوں کا مکمل انخلا اور لبنانی قیدیوں کی رہائی حاصل کرنا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ لبنان 2002 کے عرب امن اقدام کا پابند ہے اور اس کا اسرائیل کے ساتھ علیحدہ سے امن قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقتصادی تعلقات معمول پر لانے کا عمل آخر میں آتا ہے۔ اس کی باری قیام امن کے بعد آتی ہے۔واضح رہے یہ 1983 کے بعد پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک شہری قیادت میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ 1982 میں اسرائیلی حملے کے بعد دونوں ملکوں نے مذاکرات کیے تھے جو ان کے درمیان جنگ بندی اور ایک رابطہ کمیٹی کے قیام پر منتج ہوئے جسے 17 مئی کے معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لبنانی پارلیمنٹ نے اس معاہدے کی منظوری دی تھی لیکن بعد میں ایگزیکٹو اتھارٹی نے اسے منسوخ کر دیا تھا۔اسرائیل اور حزب اللہ 27 نومبر 2024 کو ایک سال کی خونریزی کے بعد جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچے تھے۔ یہ جنگ حزب اللہ کی طرف سے غزہ کی پٹی کی حمایت میں جنوبی لبنان سے ایک مددگار محاذ کھولنے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ لیکن معاہدے کے لاگو ہونے کے باوجود اسرائیل اب بھی لبنان کے مختلف علاقوں پر روزانہ فضائی حملے کر رہا ہے اور اس نے اپنی افواج کو جنوب میں 5 پہاڑیوں پر برقرار رکھا ہوا ہے۔لبنانی حکام نے معاہدے کو لاگو کرنے کے لیے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ منظور کیا ہے اور فوج نے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ لیکن واشنگٹن اور اسرائیل اس عمل کو تیز کرنے کے لیے دباو¿ ڈال رہے ہیں۔ اس وقت لبنان شدید چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں موضوع پر لبنان میں گہری اندرونی تقسیم موجود ہے۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan