یوکرین نے روسی صدر پوتن کی رہائش گاہ پر ڈرون حملوں کے الزام کی تردیدکی
کیف،30دسمبر(ہ س)۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس کے اس الزام کی تردید کی ہے کہ یوکرین نے صدر ولادیمیر پوتن کی ایک رہائش گاہ پر ڈرون حملہ کیا، اور انھوں نے ماسکو پر امن مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔روس کے وزیر خارجہ سر
یوکرین نے روسی صدر پوتن کی رہائش گاہ پر ڈرون حملوں کے الزام کی تردیدکی


کیف،30دسمبر(ہ س)۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس کے اس الزام کی تردید کی ہے کہ یوکرین نے صدر ولادیمیر پوتن کی ایک رہائش گاہ پر ڈرون حملہ کیا، اور انھوں نے ماسکو پر امن مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا ہے۔روس کے وزیر خارجہ سرگئے لاوروف نے دعویٰ کیا کہ کیﺅ نے رات کو 91 طویل فاصلے تک مار کرنے والے بغیر پائلٹ ہوائی جہازوں (UAVs) کے ذریعے روس کے شمال مغربی نووگورود علاقے میں پوتن کے سرکاری رہائش گاہ پر حملہ کیا۔روس نے کہا کہ وہ اب امن مذاکرات میں اپنی پوزیشن کا جائزہ لے گا۔ابھی تک یہ واضح نہیں کہ مبینہ حملے کے وقت پوتن کہاں تھے۔ زیلنسکی نے اس دعوے کو ’روایتی روسی جھوٹ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا، جس کا مقصد کریملن کو یوکرین پر حملے جاری رکھنے کا بہانہ دینا تھا۔انھوں نے کہا کہ روس نے پہلے کیﺅ میں سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنایا تھا۔زیلنسکی نے ایکس پر مزید کہا کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ دنیا اب خاموش نہ رہے۔ ہم روس کو پائیدار امن کے حصول کے کام کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘پیر کو ٹیلیگرام پر شیئر کیے گئے ایک بیان میں، لاوروف نے کہا کہ وہ تمام 91 ڈرونز جن کے بارے میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ پوتن کی رہائش گاہ پر لانچ کیے گئے تھے، روسی فضائی دفاعی نظاموں نے انھیں روکا اور تباہ کر دیا۔انھوں نے مزید کہا کہ حملے کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان یا نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔انھوں نے کہا،’کیﺅحکومت کی آخری زوال پذیری کے پیش نظر، جو ریاستی دہشت گردی کی پالیسی اختیار کر چکی ہے، روس کی مذاکراتی پوزیشن کو تبدیل کیا جائے گا۔‘لیکن انھوں نے مزید کہا کہ روس امریکہ کے ساتھ مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ماسکو کا یہ دعویٰ اتوار کو فلوریڈا میں امریکہ اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے بعد سامنے آیا ہے، جہاں صدر ٹرمپ اور زیلنسکی نے جنگ ختم کرنے کے لیے ایک ترمیم شدہ امن منصوبے پر بات چیت کی۔زیلنسکی نے کہا کہ امریکہ نے یوکرین کو 15 سال تک سکیورٹی گارنٹیز دی ہیں، اور ٹرمپ نے کہا کہ اس نکتے پر معاہدہ ’تقریبا 95 فیصد‘ ہو چکا ہے۔حماس کے عسکری ونگ، القسام بریگیڈز کے نئے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ اس تنظیم کے سابق ترجمان ابو عبیدہ ہلاک ہو گئے ہیں۔نئے ترجمان، جنھوں نے بھی اپنی کنیت ’ابو عبیدہ‘ رکھی ہے، نے بتایا کہ سابق ترجمان کا اصل نام حذیفہ الکحلوت (ابو ابراہیم) تھا۔اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے 31 اگست 2025 کو اعلان کیا تھا کہ غزہ میں القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’غزہ میں حماس کے ترجمان ابو عبیدہ کو مار دیا گیا ہے۔‘اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے اس وقت کہا تھا کہ حماس کے بیرونِ ملک رہنماو¿ں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ ان کے مطابق ’ہم نے کل حماس کے ایک بڑے رہنما ابو عبیدہ کو نشانہ بنایا۔ ہماری کارروائیاں ختم نہیں ہوئیں، باقی رہنما زیادہ تر بیرونِ ملک ہیں اور ہم ان تک بھی پہنچیں گے۔ترجمان نے مزید کہا کہ ثالثوں اور عالمی برادری کو اسرائیل کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرے۔فلسطین کی عسکریت پسند تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان اسرائیل غزہ جنگ کے دوران نمایاں شخصیات میں سے ایک تھے۔ ان کا نام ابو عبیدہ تھا اور انھیں حماس کی میڈیا مشین کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا۔ وہ اکثر سوشل میڈیا پر تنظیم کے پیغامات کو آن لائن پھیلاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ان کا عرفی نام ابو عبیدہ، پیغمبر اسلام کے ساتھیوں میں سے ایک ابو عبیدہ بن الجراح کی نسبت سے رکھا گیا۔ وہ ایک مسلمان فوجی کمانڈر تھے۔ ابو عبیدہ القسام کے کمانڈر محمد الدیف کی طرف سے ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ کا آغاز کرنے کے بعد ایک معروف شخصیت بن گئے۔ حماس کی طرف سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کو حماس نے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا تھا۔ اس حملے میں جنوبی اسرائیل میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ابو عبیدہ کی صحیح شناخت کوئی نہیں جانتا۔ وہ ہمیشہ ویڈیو ریکارڈنگ میں اپنے چہرے کو سرخ کوفیہ (فلسطینی روایتی سکارف) سے ڈھانپ کر آتے تھے۔ وہ ویڈیو میں قرآن کی ایک لکھی ہوئی آیت کے ساتھ کھڑے ہو کر حماس کی عسکری کارروائیوں کی پیشرفت اور ان کی تفصیلات کے بارے میں بتاتے ہوئے دکھائی دیتے۔ ابو عبیدہ اپنے ٹیلیگرام چینل کے ذریعے اپنی تقاریر شیئر کرتے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ٹیلیگرام چینل 2020 میں شروع کیا گیا تھا۔ وہ کسی اور معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سرگرم نہیں رہے۔ان کی ویڈیو تقریریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں اور کئی نیوز چینلز پر نشر ہوتی رہیں۔ لندن سے شائع ہونے والے ایک مشہور عرب روزنامے الشرق الاوسط کے مطابق ’ابو عبیدہ کو 2002 میں پہلی بار القسام کے فیلڈ عہدیداروں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا تھا۔‘اخبار کا کہنا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنا چہرہ ڈھانپ کر میڈیا سے بات کی اور القسام بریگیڈ کے سابق رہنما عماد عقیل کے انداز کو نقل کیا گیا، جسے اسرائیل نے 1993 میں جیل بھیج دیا تھا۔ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande